بسم ﷲ الرحمٰن الرحیم

حضرت ابراہیمؑ خلیل اللہ

 

 

Safia Firdous

TIL Women Urdu – Year 5

 

:حضرت ابراہیمؑ کی سیرت بصورت نظم

 

 

کیا نمرود نے بابل میں جب دعوی خدائی کا

جہاں میں عام شیوہ ہو گیا جب خود ستائی کا

 اندھیرا ہی اندھیرا کفر نے ہر سمت پھیلایا

تو ابراہیم” کو اللہ نے مبعوث فرمایا

 مٹا ڈالے بتوں کو توڑ کر اوہام مرسل نے

دیا بندوں کو پھر اللہ کا پیغام مرسل نے

 کیا شیطان کو رسوا عدوئے جان و دیں کہہ کر

کیا سینوں کو روشن لا احب الافلین کہہ کر

 مگر نمرود کو بھائیں نہ یہ باتیں بھلائی کی

کہ مسند چھوڑنی پڑتی تھی کافر کو خدائی کی

ہوا یہ بندہ شیطاں خلیل اللہ کا دشمن

چراغ حق بجھانے کو کیا آتش کدہ روشن

 خلیل اللہ کو اس آگ کے انبار میں پھینکا

گل توحید گویا تختہ گلزار میں پھینکا

 بروئے کار آیا آج بھی وہ نور پیشانی

ہوا جب آتشیں منظر نمونہ باغ جنت کا

ملا پیغام پیغمبر کو اب بابل سے ہجرت کا

 کہ یہ بھی خدمت تبلیغ کا اک پاک حیلہ ہے

سفر کہتے ہیں جس کو کامرانی کا وسیلہ ہے

کہ ایمان براہیمی سے اکثر کام لینے تھے

  ابھی پیاسوں کو بھر کر معرفت کے جام دینے تھے

وطن کو چھوڑ کر نکلا خدائے پاک کا پیارا

برادرزادہ تھا ہمراہ یا تھیں حضرت سارا

مقدس قافلہ اس خطہ باطل سے ٹل آیا

بحکم حق تعالی جانب کنعاں نکل آیا

یہاں وعدہ کیا حق نے کہ ہاں اے بندہ ذیشاں

 تری اولاد کو مل جائے گا یہ خطہ کنعان

مقدر ہو گئی اولاد میں دارین کی شاہی

تو پیغمبر دیار مصر کی جانب ہوا راہی

 

 

حضرت ابراہیمؑ کی دُعا:

سحر کے وقت ابراہیم نے اُٹھ کر دُعا مانگی

سکون قلب مانگا خوئے تسلیم و رضا مانگی

کہ “اے مالک عمل کو تابع ارشاد کرتا ہوں

میں بیوی اور بچے کو یہاں آباد کرتا ہوں

اسی سنسان وادی میں انہیں روزی کا ساماں دے

اس بے برگ و سامانی کوشان صد بہاراں دے

الٰی نسل اسمٰعیل بڑھ کر قوم ہو جائے

یہ قوم اک روز پابند صلوٰة وصوم ہو جائے

اسی وادی میں تیرا ہادی موجود ہو پیدا

کرے جو فطرت انساں کو تیرے نام پر شیدا

بشارت تیری سچی ہے ترا وعدہ بھی سچا ہے

بس اب تو ہی محافظ لے  یہ بیوی ہے یہ بیچا ہے

 

 

حضرت اسمٰعیلؑ کی قربانی:

بشارت خواب میں پائی کہ اُٹھ ہمت کا ساماں کر

پئے خوشنودی مولٰی اسی بیٹے کو قرباں کر

خلیل اللہ اُٹھے خواب سے دل کو یقیں آیا

کہ آخر امتحاں بندے کا مالک نے ہے فرمایا

اُٹھا مرسل اسی عالم میں رسی اور تبر لے کر

  پئے تعمیل چل نکلا خدا کا پاک پیغمبر

پہاڑی پر سے دی آواز اسمعیل ادھر آؤ

ادھر آؤ ، خدائے پاک کا ارشاد سن جاؤ

 پدر کی یہ صدا سن کر پسر دوڑا ہوا آیا

رکا ہر گز نہ اسمٰعیل گو شیطاں نے بہکایا

پدر بولا کہ بیٹا آج میں نے خواب دیکھا ہے

  کتاب زندگی کا اک نرالا باب دیکھا ہے

 یہ دیکھا ہے کہ میں خود آپ تجھ کو ذبح کرتا ہوں

خدا کے نام سے تیرے لہو میں ہاتھ بھرتا ہوں

 سعادت مند بیٹا جھک گیا فرمان باری پر

زمین و آسماں حیراں تھے اس طاعت گزاری پر

 رضا جوئی کی یہ صورت نظر آئی نہ تھی اب تک

یہ جرات پیشر انساں نے دکھلائی نہ تھی اب تک

عجب بشاش تھے دونوں رضائے رب عزت پر

تامل یا تذبذب کچھ نہ تھا دونوں کی صورت پر

مگر آنکھوں پر اپنی آپ پٹی باندھ لیجے گا

مرے ہاتھوں میں اور پیروں میں رسی باندھ دیجے گا

مبادا آپ کو صورت پہ میری رحم آ جائے

 مبادا میں تڑپ کر چھوٹ جاؤں ہاتھ تھرائے

 پسر کی بات سن کر باپ نے تعریف فرمائی

 یہ رسی اور پٹی باندھنی ان کو پسند آئی

ہوئے اب ہر طرح تیار دونوں باپ اور بیٹا

چھری اس نے سنبھالی تو یہ جھٹ قدموں میں آ لیٹا

 پچھاڑا اور گھٹنا سینہ معصوم پر رکھا

چھری پتھر پہ رگڑی ہاتھ کو حلقوم پر رکھا

 زمیں سہمی پڑی تھی، آسماں ساکن تھا بیچارہ

   نہ اس سے پیشر دیکھا تھا یہ حیرت کا نظارہ

 پدر تھا مطمئن بیٹے کے چہرے پر بحالی تھی

 چھری حلقوم اسمٰعیل پر چلنے ہی والی تھی

مشیت کا مگر دریائے رحمت جوش میں آیا

کہ اسمٰعیل کا اک رونگٹا کٹنے نہیں پایا

 ہوئے جبریل نازل اور تھاما ہاتھ حضرت کا

کہا بس امتحاں مقصود تھا ایثار و جرات کا

 یہ طاعت اور قربانی ہوئی منظور یزدانی

 کہ جنت سے یہ برہ آ گیا ہے بہر قربانی

ہمیشہ کے لیے اس خواب صادق کا ثمر لیجے

 اس برے کو بیٹے کے عوض قربان کر دیجے

 غرض دنبہ ہوا قربان اسمٰعیل کے صدقے

ہوئی یہ سنت اس ایمان کی تکمیل کے صدقے

 خطاب اُس دن سے اسمٰعیل نے پایا ذبیح اللہ

  خدا نے آپ اُن کے حق میں فرمایا ذبیح اللہ

 

 

 

جَزَاكَ ٱللَّٰهُ