بسم ﷲ الرحمٰن الرحیم

 

دورِ فرعون کا قتل عام اور آج کی صورتحال

Sadaf Rao
TIL Women Urdu – Year 2

قرآن سے ثابت ہے۔ فرعون نے کہا “میں سب سے بڑا رب ہوں اور اپنے رب ہونے کا دعویٰ کیا”

( نعوذ باللہ)

اور نہ ماننے والوں پر سخت ظلم اور قتل عام کیا حتٰی کہ اپنی بیوی اور باندھی کے اللّٰہ پر ایمان لانے پر ان پر درد ناک ستم کیا اور انکو بھی مار ڈالا۔

قرآن میں بہت جگہ موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کے واقعے کو ذکر کیا گیا ہے ظاہر ہے جب اللہ تعالٰی ایک بات کو بہت بار بیان کرتے ہیں

تو اللہ تعالی چاہتے ہیں کہ لوگ بار بار یہ واقعہ سنیں اور عبرت حاصل کریں۔

کیونکہ عبرت کی جتنی باتیں ہمیں ان واقعات سے حاصل ہوتی ہے شاید ہی کنہی اور واقعات میں ملے۔ ایسے اسباب، اللہ کس طرح مہلت دیتا ہے اپنے نافرمانوں کو، ظالموں کے خلاف کیسے اللہ خفیہ تدبیریں کرتا ہے اور ظالموں کو پتہ بھی نہیں چلتا۔

 

 

آج کے مسلمانوں کی صورتحال

ساری دنیا کا باطل آج مسلمانوں کو ہی نشانہ بنا رہا ہے، مسلمانوں کا ہی مذاق بنایا جا رہا ہے، مسلمانوں کے گھروں کو جلاتے اور توڑتے ہیں، مسلمانوں کی لاشوں پر ناچتے ہیں، مسلمانوں پر ظلم کرتے ہیں، ملکوں کے اندر ایک کتے اور بلی کے خون کی قیمت ہے لیکن مسلمانوں کے خون کی کوئی قیمت نہیں، غیر اللہ کے نعرے لگوائے جا رہے ہیں، مسلمانوں کو دہشت گرد کی نگاہوں سے دیکھا جا رہا ہے جھوٹے الزام لگائے جا رہے ہیں!

 

وجہ

ایک وہ دور تھا جب مسلمانوں کا عروج تھا مسلمانوں نے رہنے کا سلیقہ سکھایا تھا جب سے ہماری خلافتیں ختم ہوئیں تباہیاں شروع ہوئی، اس وقت سے ہم تنزل کی طرف ہی جاتے جا رہے ہیں، یہ ہمارا قصور ہے کہ ہمارے حالات ایسے ہیں، قرآن اور حدیث ہونے کے باوجود ہماری زندگی اس کا نمونہ نہیں ہے، گناہوں میں ڈوبی زندگی ہے، اللہ کو مسلمان مانتا تو ہے مگر اللہ کی نہیں مانتا ہے، یہ ظالم حکمران ہمارے ہی گناہوں کا ہم پر عذاب ہے!

 

ضرورت

مسلمان کو چاہیے کہ اللہ سے ڈرے، تقویٰ اختیار کرے، قرآن، حدیث اور سنتوں پر مسلمان کی زندگی ہو۔

 حدیث میں آتا ہےسب سے افضل جہاد وہ ہے جو ظالم بادشاہ کے سامنے حق کی بات بلند کرے

پوئیٹری

 

،مسلمانوں سنبھل جاؤ سنبھل جانے کا وقت آیا”

،بہت سوئے ہو تم اب ہوش میں آجانے کا وقت آیا

،جلا ڈالی تھی تم نے کستیان اُدلست ساحل پر

،مسلمنوں وہی تاریخ دہرانے کا وقت آیا

،جہاں سے ۳۱۳ چلے تھے تم مسلمانوں

،انہی ماضی کی راہوں پر پلٹ جانے کا وقت آیا

،تپش سورج سے لو اور آسمان سے بجلیاں چھینوں

،کفر کے اشیاء پہ آگ برسانے کا وقت آیا،

،بھڑک اٹھے ہیں فر سے آتشے نمرود کے شعلے

،کہ انہیں پھر جذبہ ابراہیم دکھلانے کا وقت آیا

،اٹھو! صلاح الدین ایوبی کے فرزندو

،کہ اس غازی کے افسانے کو دہرانے کا وقت آیا

،جوانانے وطن

،اٹھو! کفن بردوش ہو جاؤ

،جهاد في سبيل الله کر جانے کا وقت آیا

،نبی کی آبرو باقی رہے گی

،تم بھی باقی رہو

،ورنہ غلامی میں فر اُلجھ جانے کا وقت آیا

،سنو یہ روضہ اطہر سے کیا آواز آتی ہے

،مسلمانوں میری حرمت پہ کٹ جانے کا وقت آیا

،غلامانِ محمد کو سدا بیدار رہنا ہے

،ابھی ختمے نبوّت پر بہت ہوشیار رہنا ہے

،محازو مروچوں پر جانساروں کو کھڑا رکھنا

،سروں کی فصل کٹ جائے مگر پہرا کھڑا رکھنا

،نسلوں کی نسل کٹ جائے مگر پہرا کھڑا رکھنا

،ابھی ہیں معر کے باقی ہمیں تیار رہنا ہے

،غلامانِ محمد کو سدا بیدار رہنا ہے

،پھیرے ختمِ نبوّت سے تو مٹ جائیں گے دنیا سے

،عقیدہ نہ رہا قائم تو دنیا سے پٹ جائینگے

،ہر ایک منکر کے راستے میں بنے دیوار رہنا ہے

،غلامانِ محمد کو سدا بیدار رہنا ہے

،فقط ختمِ نبوّت سے مسلمانی سلامت ہے

،مگر نہ اے مسلمانوں قیامت ہی قیامت ہے

،ہمیں عشقِ رسالت سے سدا سرشار رہنا ہے

“غلامانِ محمد کو سدا بیدار رہنا ہے

 

جَزَاكَ ٱللَّٰهُ