بسم ﷲ الرحمٰن الرحیم

اللهم صلى على محمد و على ال محمد وبارك وسلم

Afifa Rehmatullah Pathan

TIL Women Urdu – Year 1

محرم الحرام اور عاشوراء کی اہمیت

محرم الحرام (اللہ کا مہینہ)

ہر آنکھ نم ہوتی ہے محرم میں

آنسو سُنی یا شیعہ نہیں ہوتے !!!

 

ماه محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے۔ نیا سال زندہ قوموں کے لئے نئی امنگیں اور تازہ ولولے لیکر آتا ہے۔ نئے سال کی آمد ایک احساس قوم کو آگاہ کرتی کہ اس کی تاریخ کا ایک اہم باب ختم ہو گیا اور اب ایک نیا اہم میقا العمل شروع ہو رہا ہے۔ اس کے گزشتہ سال کا نامہ اعمال ماضی کے صفحات پر ثبت ہو چکا ہے۔ اب اس کا جائزہ لیکر وہ اپنے مستقبل کیلئے از سر نو تازہ دم ہو کر اور نئے جوش عمل سے اپنے نصب العین کی طرف آگے بڑھنے میں مصروف ہو جائے۔ گویا نیا سال دیا نیا سال قوم کے خفتہ اور ستائے ہوئے احساس ذمہ داری کو بیدار تیز وتر اور مستعد کر دیتا ہے۔

 

اس مہینے کے اندر بہت سارے اہم واقعات پیش آتے رہے ہیں۔ چند ایک درج ذیل ہیں۔

  • اس مہینے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کی توبہ قبول فرمائی۔
  • حضرت نوح کی کشتی طوفان نوح کے بعد جودی نامی پہاڑ کے قریب آکر ٹھہری تھی۔
  • حضرت یوسف کو اس مہینے میں قید سے رہائی حاصل ہوئی ۔
  • حضرت ایوب کو طویل بیماری کے بعد شفا نصیب ہوئی ہے۔
  • حضرت یونس کو مچھلی کے پیٹ سے نجات ملی۔
  • حضرت موسیٰ اور بنی اسرائیل کو فرعون اور آل فرعون سے اس طرح نجات ملی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے فرعون سمیت اس کی فوجوں کو بحیرہ قلزم میں غرق کر دیا تھا۔
  • حضرت عیسیٰ کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا گیا تھا۔
  • دس محرم الحرام کی وہ تاریخ ہے جس میں نواسہ رسول سیدنا حضرت حسین ہ شہادت کے مرتبے پر فائز ہوئے۔
  • قیامت کا وقوع بھی دس محرم الحرام اور جمعہ کے دن ہوگا۔

 

“عاشورا” محرم الحرام کی دسویں تاریخ کا نام ہے۔ اور محرم الحرام کے پورے مہینے میں جو تقدیس آئی ہے وہ اس تاریخ اور دن کی وجہ سے ہے۔ رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت سے پہلے شریعت اسلامیہ میں بھی بطور فرض کے عاشورہ کا روزہ رکھا جاتا رہا ہے ۔ رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت کے بعد عاشورہ روزے کی فرضیت کو منسوخ ہو گئی ، لیکن ، کے لیکن عاشوره کے دن کی تقدیس برقرار ہے۔

 

نبیؐ کے سامنے یہ بات لائی گئی کہ مدینہ منورہ کے یہودی ہے. عاشورہ محرم کا روزہ رکھا کرتے تھے ، جب ان یہودیوں سے اس روزے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے یہ بات بتائی کہ ہمیں فرعون سے نجات اسی دن حاصل ہوئی تھی ۔ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی اس نعمت کے شکرانے کے طور پر ہم اس کا روزہ رکھا کرتے ہیں۔ حضور اکرم نے یہ بات ارشاد فرمائی کہ آئندہ سال دس محرم الحرام کے روزے کے ساتھ میں نو محرم الحرام کا روزہ بھی اگر اس دنیا میں رہا تو ضرور رکھوں گا۔ (صحیح مسلم جلد اول)

 

چنانچہ اس ارشاد مبارک کی روشنی میں فقہائے کرام یہ مسئلہ بتاتے ہیں کہ اکیلا دس محرم الحرام کا روزہ نہ رکھا جائے بلکہ اس کے ساتھ اور زورہ بھی ملایا جائے یعنی محرم الحرام کی نو اور دس تاریخ کا روزہ رکھے یا دس اور گیارہ تاریخ کا روزہ رکھے۔ اس طرح مشابہت ختم ہو جائے گی اور مشابہت کی وجہ سے نیکی بند نہیں بلکہ اس میں اضافہ کر کے فرق کر دیا کریں گے۔

 

نبی اکرم نے اس روزے کے حوالے سے ارشاد فرمایا : “جو شخص عاشورہ کا روزہ رکھے، مجھے اللہ تعالیٰ کی ذات سے امید واثق ہے کہ اس کے پچھلے ایک سال کے گناہ معاف فرما دیں گے “(صحیح مسلم )

بعض روایات میں اس دن کے حوالے سے یہ بات ملتی ہے کہ ” اگر کوئی شخص اپنے اہل خانہ پر عام دنوں کے مقابلے میں بہتر کھانے (اپنی استطاعت کے مطابق) کا انتظام کرے تو اللہ تعالی پورا ایک سال اس کے رزق میں برکت عطا فرمائے گا۔” (مشكوة)

 

اس مہینے کے حوالے سے تاریخ اسلام کے دو اہم ترین واقعے یہ ہیں:

1. یکم محرم الحرام کو امیر المؤمنین ، خلیفہ راشد سیدنا عمر بن خطاب (رض) کی شہادت کا واقعہ پیش آیا۔

2. تاریخ اسلام کا دوسرا اہم ترین واقعہ 10 محرم الحرام کو سیدنا حضرت حسین ابن علی (رض) کی شہادت کا ہے۔

جس نے نانا کا وعدہ وفا کر دیا

گھر کا گھر سب سپردِ خدا کر دیا

نوش کر لیا جس نے شہادت کا جام

اُس حسین ابنِ حیدر پر لاکھوں سلام

 

 

یہ ایک ایسا اندوہناک سانحہ ہے کہ رہتی دنیا تک اس کی کسک ہر مومن کے دل میں ہر اس موقع پر اٹھتی رہے گی ، جب . جب یہ واقعہ اس کی ذہن میں تازہ ہوتا رہے گا۔ سیدنا حضرت حسین (رض) اہل بیت میں شمار ہوتے ہیں۔

 

حضرت امیر معاویہ (رض) کے بعد یزید نے مسند اقتدار سنبھال لیا تھا اور مسلمانوں سے اپنی خلافت کے حق میں خود اور اپنے کارندوں کے ذریعے بیعت لینا شروع کر دی تھی سیدنا حسین (رض) سے بھی مطالبہ کیا گیا لیکن چونکہ یزید کی بیعت خلافت نہیں، بلکہ ملوکیت تھی۔ حضرت حسین (رض) نے بیعت کرنے سے سختی سے انکار فرمایا ۔ تاریخی روایات کے مطابق بیعت نہ کرنے والے صحابہ سے یزید کے کارندوں نے بد سلوکی کا مظاہرہ کیا۔

 

سیدنا حسین (رض) یزید کے ظلم سے عوام الناس کوبچانے اور دین کی سربلندی کی غرض سے کربلا کی طرف آئے تھے۔

 

خلق خدا پر اپنے ظالمانہ قوانین کی پیروی کا حکم دینے اور محرمات الہی کو توڑنے والی حکومت کے خلاف آپ نے صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے ببانگ دہل فرمایا :-

“لوگوں ! رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ جس نے ظالم ، محرمات الہی کو حلال کرنے والے ، اللہ کے عہد کو توڑنے والے ، اللہ کے بندوں پر گناہ اور ظلم و زیادتی کے ساتھ حکومت کرنے والے بادشاہ کو دیکھا اور قولاً وعملاً اسے بدلنے کی کوشش نہ کی ، تو الله تعالیٰ کو یہ حق ہے کہ دوزخ میں داخل کردے آگاه ہو جاؤ ، ان لوگوں نے شیطان کی حکومت قبول کر لی ہے اور رحمن کی اطاعت چھوڑ دی ہے ، ملک میں فساد پھیلایا اور حدود الله کو معطل کر دیا ہے ، یہ مال غنیمت سے اپنا حصہ زیادہ لیتے ہیں ، انہوں نے اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال کر دیا ہے اور حلال کردہ چیزوں کو حرام کر دیا ہے ، اس لیے مجھے اس کے بدلنے کا حق ہے “

 

تاریخی روایات کے مطابق ایسے حالات پیدا ہوئے کہ سیدنا حضرت حسین رضہ کو مدینہ منورہ سے کربلا کی طرف سفر کرنا پڑا ، اس سفر سے متعلق شواہد کے حصول کے لیے اپنے چچا زاد بھائی کی مسلم بن عقیل کو پہلے ہی روانہ کر چکے تھے ، لیکن کوفیوں نے اُن کے ساتھ وعدوں کے باوجود اچھا سلوک نہ کیا اور انہیں یزیدی کارندوں کے حوالے کر دیا۔ جنہوں نے انہیں شہید کر دیا۔ سیدنا حسین ان حالات کے اندر کربلا پہنچے ، جہاں ان کے قافلے کو روکا گیا اور ان سے یزید کی بیعت حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ، جسے آپ نے منظور نہیں فرمایا ۔ محرم الحرام کو آپ کا پانی بھی بند کردیا گیا اور بالآخر اس معرکے میں سیدنا حسین رض نے احقاق حق کی خاطر اپنی جان ، جان آفریں کے سپرد فرمادی ۔

کلیجہ شق ہوا مظلومیت کی انتہا لکھ کر

قلم بھی رو دیا نام شہید کربلا لکھ کر

یوں ہی نہیں جہاں میں چرچا حسین کا

کچھ دیکھ کہ ہوا ہے زمانہ حسین کا

سردے کے دو جہاں کی حکومت خریدی

مہنگا پڑا یزید کو سودا حسین کا

جَزَاكَ ٱللَّٰهُ