بسم ﷲ الرحمٰن الرحیم

حضرت محمد ﷺ کی زندگی میں اعتدال کا سنہرا اصول

 

 

Namra Abdul Wahab

TIL Women Urdu – Year 3

 

 

اعتدال کی تعریف:

اعتدال کا مطلب ہے کسی بھی عمل میں میانہ روی اختیار کرنا۔ نہ بہت زیادہ سختی اور نہ ہی بے حد نرمی، بلکہ ایک درمیانہ راستہ۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو “امتِ وسط” کہا ہے، یعنی درمیانی امت۔

رسول اللہ ﷺ کی ذاتی زندگی میں اعتدال:حضرت محمد ﷺ کا طرز زندگی میانہ روی پر مبنی تھا، چاہے وہ عبادات ہوں، خوراک ہو، سونا جاگنا ہو، یا دیگر دنیاوی معاملات۔

قرآن کریم میں ہے:

’’وَ کَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَہِیْدًا‘‘

(سورۃ البقرہ: ۱۴۳)

ترجمہ: ’’اور ( مسلمانو !) اسی طرح تو ہم نے تم کو ایک معتدل امت بنایا ہے، تاکہ تم دوسرے لوگوں پر گواہ بنو ، اور رسول تم پر گواہ بنے۔‘‘

حضرت محمد ﷺ کی زندگی میں اعتدال کا اصول بہت نمایاں تھا اور اس کی متعدد مثالیں ملتی ہیں۔ آپ ﷺ نے ہمیشہ لوگوں کو درمیانی راستہ اختیار کرنے کی ترغیب دی اور انتہاپسندی سے بچنے کی تلقین کی۔ اعتدال کا سنہرا اصول آپ ﷺ کی زندگی کے مختلف پہلوؤں میں جھلکتا ہے

 

 عبادات میں اعتدال

   حضرت محمد ﷺ نے عبادات میں بھی اعتدال کو اہمیت دی۔

حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے : ایک واقعے میں، جب کچھ صحابہ نے یہ ارادہ کیا کہ وہ پوری رات عبادت کریں گے، ان میں سے ایک نے کہا: میں تو ہمیشہ ساری رات نماز پڑھوں گا۔ دوسرے نے کہا: میں دن کے وقت ہمیشہ روزہ رکھوں گا اور افطار نہیں کروں گا اور تیسرے نے کہا: میں عورتوں سے اجتناب کروں گا اور میں کبھی شادی نہیں کروں گا نبی ﷺ ان کے پاس آئے اور پوچھا: تم وہ لوگ ہو جنہوں نے اس طرح، اس طرح کہا ہے، اللہ کی قسم! میں تم سے زیادہ اللہ سے ڈرتا ہوں اور تم سے زیادہ تقویٰ رکھتا ہوں، لیکن میں روزہ بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں، رات کو نماز پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور میں عورتوں سے شادی بھی کرتا ہوں، پس جو شخص میری سنت سے اعراض کرے وہ مجھ سے نہیں۔ “ «متفق عليه، رواه البخاري (5063) و مسلم 5/ 1403)»

حضرت جابر بن سمرة رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نمازیں پڑھا کرتا تھا چنانچہ آپ کی نماز اور آپ کا خطبہ درمیانہ ہوتا ۔(جامع ترمزى : 507 ) ( قال الشيخ الألباني : صحيح)۔

 

 اخلاق میں اعتدال

   آپ ﷺ نے اپنے اخلاق میں ہمیشہ میانہ روی کا مظاہرہ کیا۔ آپ ﷺ نہایت نرم دل اور مہربان تھے، لیکن جب حق کی بات آتی تو آپ ﷺ مضبوط اور فیصلہ کن بھی ہوتے۔ یہ اعتدال آپ ﷺ کے کردار کا خاصہ تھا۔

 

 معاشرت میں اعتدال

   آپ ﷺ نے معاشرتی معاملات میں بھی اعتدال کو فروغ دیا۔ آپ ﷺ نے نہ صرف لوگوں کے حقوق کا احترام کیا بلکہ ان کی ذمہ داریوں کی بھی یاد دہانی کرائی۔ آپ ﷺ نے اس بات پر زور دیا کہ ہر شخص اپنے خاندان، پڑوسیوں اور معاشرے کے دیگر افراد کے حقوق پورے کرے۔

 

 مالیات میں اعتدال

   آپ ﷺ نے مالیات میں بھی اعتدال کی تعلیم دی۔ فضول خرچی اور بخل دونوں سے منع کیا۔

: آیتِ قرآنی سے اعتدال کی اہمیت

 

اللّہ تعالی فرماتا ہے: وَالَّذِينَ إِذَا أَنفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا وَكَانَ بَيْنَ ذَٰلِكَ قَوَامًا

ترجمہ :”اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں، نہ حد سے بڑھیں اور نہ تنگی کریں اور ان دونوں کے بیچ اعتدال پر رہیں۔” (پارہ 19، سورةالفرقان ، آیت نمبر 67)

 

مسلم شریف کی حدیث ہے:” نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” میانہ روی اختیار کرو کیونکہ جس کام میں میانہ روی ہوتی ہے، وہ کام سنور جاتا ہے اور جس کام میں میانہ روی نہیں ہوتی، وہ کام بگڑ جاتا ہے۔”

 

حضرت محمد ﷺ کی زندگی میں اعتدال کا سنہرا اصول ایک جامع رہنمائی ہے جو ہمیں ہر معاملے میں میانہ روی اور توازن کی تعلیم دیتی ہے، جس سے زندگی میں سکون اور کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔

 

نبی کریم  ﷺ کی حیاتِ طيبہ ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے اور توازن و اعتدال کی اعلیٰ ترین مثال بھی ہے۔

اللّہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا گو ہیں کہ اللہ ہمیں میانہ روی کی اہمیت کو سمجھنے اور اس پر عمل کی توفیق عطاء فرمائے۔اٰمِیْن

 

 

 

جَزَاكَ ٱللَّٰهُ