بسم ﷲ الرحمٰن الرحیم

 

اللہم صل علی سیدنا محمد و علی آل سیدنا محمد و بارك و سلم

 

سیرت نبی ﷺ کا عکس صحابہ کرام کی زندگی میں

 

 

ثنا فہیم

TIL Women Urdu – Year 5

 

سیرت نبی ﷺ کا عکس صحابہ کرام کی زندگی میں

 

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا چناؤ :

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ناموں میں سے ایک نام مجتبی ہے ۔ جس کے معنی ہیں چنا ہوا ۔ پسند کیا ہوا نا صرف یہ کہ الله سبحان و تعالٰی نے اپنے محبوب ﷺ  کو چن لیا تھا بلکہ اللہ تعالٰی نے اپنے محبوب  ﷺ کے لیے ان کے اصحاب اور ساتھیوں کا بھی چناؤ فرمایا تھا۔اللہ تعالٰی نے دنیا کے اطراف سے صحابہ کو چن لیا تھا اور آپ ﷺ کی صحبت اور رفاقت کے لیے مدینہ منورہ پہنچا دیا تھا۔

اللہ رب العزت نے سلیمان فارس چمکتے ہوئے ہیرے کو آپ ﷺ کی جھولی میں ڈال دیا  پھر  حبشہ سے اللہ تعالٰی نے بلال رضی اللہ عنہ  کو آپ ﷺ کے غلاموں میں شامل فرمایا روم سے اللہ تعالٰی نے حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ کو آپ ﷺ کی جھولی میں ڈالا پھر یمن س اللہ تعالٰی نے حضرت ابو ہریرہ  کو  حضور  ﷺ کی غلامی کے لیے منتخب فرمایا ۔

حضور ﷺ نے فرمایا: اللہ نے مجھے چن لیا ہے اور میرے لئے میرے صحابہ کو چن لیا ہے

 

رسول اللہ ﷺ کے  صحابہ کرام کے تقوی کا امتحان :

سوال یہ ہے کہ جب اللہ تعالٰی نے صحابہ کرام کا چناؤ کیا تھا تو کیا کوئی امتحان بھی لیا تھا یا ویسے ہی محبوب کے قدموں میں ڈال دیا تھا۔قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ باقاعدہ امتحان لیا گیا تھا  ۔الله سبحان و تعالٰی فرماتے ہیں کہ میرے  محبوب ﷺ کے صحابہ یہ وہ جماعت ہیں جن کا اللہ نے امتحان لیا تھا

اور یہ امتحان تقوی کا امتحان تھا اور نتیجہ کیا نکلا ؟

الله سبحان و تعالٰی اس بارے میں فرماتے ہیں :

 

وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ هاجَرُوۡا وَ جٰہَدُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ الَّذِیۡنَ اٰوَوۡا وَّ نَصَرُوۡۤا اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ حَقًّا ؕ لَہُمۡ مَّغۡفِرَۃٌ   وَّ رِزۡقٌ  کَرِیۡمٌ ﴿ سورہ الانفال ۷۴﴾

اور جو لوگ ایمان لے آئے ، اور انہوں نے ہجرت کی ، اور اللہ کے راستے میں جہاد کیا ، وہ اور جنہوں نے انہیں  جگہ دی، اور ان کی  مدد  کی ، وہی ہیں سچے مومن ۔ ان کے لیے بخشش ہے اور عزت کی روزی ۔

 

 میرے محبوب کی صحبت کے قابل بن گئے ۔حضور ﷺ کے صحابہ میں الله سبحان و تعالٰی نے تمام تر صفات اور کمالات کو جمع فرما دیا تھا ۔حضور ﷺ کے صحابہ عابد تھے، زاہد تھے، مجاہد تھے ،داعی تھے،  مزکی تھے اور مربی تھے  مگر ان کو کبھی عابد ، زاہد وغیرہ کہ کر نہیں بلایا گیا بلکہ صحابہ رسول کہ کر بلایا گیا کیونکہ انہیں رسول اللہ کی صحبت ملی تھی اور وہ اس کی وجہ سے اعلی درجے کے عابد، زاہد، داعی، مجاہد اور مربی بنے  تھے۔

 

رسول اللہ ﷺ کی صحبت کا اثر حضرات صحابہ کرام کی زندگی میں:

 حضور ﷺ میدان جہاد میں تھے ایک بندہ بھاگتا ہوا آیا فرمانے لگا اللہ کے نبی میں پہلے کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو جاؤں یا جہاد شروع کروں ۔ حضور ﷺ نے فرمایا پہلے کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو جاؤ پھر جہاد شروع کرو چنانچہ صحابی نے ایسا ہی کیا اور تھوڑی دیر بعد شہید ہو گئے آپ ﷺ نے فرمایا اس بندے نے عمل تو بہت تھوڑے کیے مگر اجر کثیر پا گیا  یہ وہ صحابی ہیں جنہوں نے اپنی پوری زندگی میں ایک نماز نہیں پڑھی ایک روزہ بھی نہیں رکھا  ایک حج بھی نہیں کیا۔ لیکن ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ صحابہ کرام کے بعد جتنے بھی نمازی، روزے دار ہیں جتنے حاجی ان سب کو اکٹھا کر لیا جائے اس ایک صحابی کا مقام  نہیں پا سکتے۔

 

رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات قرآن کا عکس حضرات صحابہ کرام کی زندگی میں:

 

 آپ ﷺ ابھی مکہ ہی تھے مدینہ منورہ ہجرت نہیں فرمائی تھی حضرت مصعب بن عمير رضی اللہ عنہ کو مدینہ منورہ قرآن کی تعلیم دینے کے لئے بھیجا انہوں نے مدینہ کے لوگوں کو قرآن کی تلاوت و تعلیمات سنانا شروع کر دیں، جوق در جوق لوگ آ رہے تھے۔ انھی میں حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ جو ابھی صحابی نہیں بنے تھے نے اپنے چچا کے بیٹے اسید بن حضیر  کو کہا جاؤ پتہ کرو یہ کون ہے جس کی طرف لوگ جوق در جوق جارہے ہیں اور حضرت اسید بن حضیر پہلی نظر میں ہی حضرت مصعب بن عمير رضی اللہ عنہ کو دل دے بیٹھے کہنے لگے جس دین کی آپ دعوت دیتے ہیں وہ دین مجھ پر پیش کرو اور حضرت اسید بن حضیر نے اسلام قبول کر لیا۔سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے دور سے دیکھ کر فرمایا  اسید جس چہرے کے ساتھ گئے تھے اس کے ساتھ واپس نہیں آ رہے۔مصعب بن عمير رضی اللہ عنہ کی ایک نظر نے اسید بن حضیر کے دل کو ہی نہیں بلکہ چہرے کو بھی بدل دیا تھا ۔ یہ آپ ﷺ کے صحابی کی نظر کا اثر تھا آپ ﷺ کے صحابی کی ایک لمحے کی صحبت کا اثر تھا  تو رسول اللہﷺ کی اپنی صحبت کا کیا اثر ہو گا 

 

 

رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات جہاد کا عکس حضرات صحابہ کرام کی زندگی میں:

حضرت سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ آپ  ﷺ  کے پردہ فرما جانے کے بعد حضرت ابوبکر صدیق نے شام کی طرف لشکر روانہ فرمائےاور حضرت ابو بکر ان کو فرمایا میں تمہیں اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی تاکید کرتا ہوں اللہ کے راستہ میں جہاد کرو۔ اور جو اللہ تعالیٰ کو نہ مانے اس سےجنگ کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے دین کا مددگار ہے اور مال غنیمت میں خیانت نہ کرنا اور بد عہدی نہ کرنا اور بزدلی نہ دکھانا اور زمین میں فساد نہ پھیلانا اور تمہیں جو حکم دیا جائے اس کے خلاف نہ کرنا جب تقدیر خداوندی سے مشرک دشمن نے تمہارا سا منا ہو تو اسے تین باتوں کی دعوت دینا اگر وہ تمہاری باتیں مان لیں تو تم ان سے قبول کر لینا اور رک جانا (سب سے پہلے ) ان کو اسلام کی دعوت دو۔ اگر وہ اسے مان لیں تو تم ان سے اسے قبول کر لو۔ اور ان سے (جنگ کرنے سے)رک جاؤ۔ پھر ان سے کہو کہ وہ اپنا وطن چھوڑ کر مہاجرین کے وطن منتقل ہو جائیں۔ اگر وہ ایسا کر لیں تو انہیں بتاؤ کہ ان کو وہ تمام حقوق ملیں گے جو مہاجرین کو حاصل ہیں اور ان پر وہ تمام ذمہ داریاں عائد ہوں گی جو مہاجرین نہ ہیں اور اگر وہ اسلام میں داخل ہو جا ئیں اور اپنے وطن میں ہی رہنا پسند کریں اور مہاجرین کے وطن نہ آنا چاہیں تو انہیں بتا دینا کہ ان کے ساتھ دیہات میں رہنے والے مسلمانوں والا معاملہ ہوگا اور ان پر اللہ تعالیٰ کے وہ تمام احکام لاگو ہوں گے جو تمام مومنوں پر اللہ تعالیٰ نے فرض فرمائے ہیں اور مسلمانوں کے ساتھ جہاد میں شرکت کیے بغیر انہیں فئی اور مال غنیمت میں سے کچھ نہیں ملے گا اور اگر اسلام قبول کرنے سے وہ انکار کریں تو انہیں جزیہ ادا کرنے کی دعوت دو۔ اگر وہ اسے مان جائیں تو تم ان سے اسے قبول کر لو اور ان سے جنگ کرنے سے رک جاؤ اور اگر وہ جزیہ دینے سے بھی انکار کر دیں تو اللہ تعالی سے مدد طلب کر کے ان سے جنگ کرو۔ کھجور کے کسی درخت کو ضائع نہ کرنا اور نہ اسے جلانا اورکہی جانور کی ٹانگیں نہ کانا اور نہ کسی پھل دار درخت کو کاٹنا اور نہ ان کی ) کسی عبادت گاہ کوگرانا اور بچوں اوربوڑھوں اور عورتوں کو قتل نہ کرنا اور تم ایسے لوگوں کو بھی پاؤ گے جو خلوت خانوں میں گوشہ نشین ہوںگے۔ انہیں ان کی حالت پر چھوڑ دینا کہ وہ اپنے کام میں لگے رہیں ۔

 

رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات انصاف کا عکس حضرات صحابہ کرام کی زندگی میں:

حضرت عبد اللہ بن ابی حدرد اسلمی  فرماتے ہیں جب ہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ دمشق کی ایک بستی میں پہنچے تو آپ نے ایک بوڑھے ذمی کو دیکھا کہ وہ لوگوں سے کھانا مانگ رہا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ یہ کیوں مانگ رہا ہے  کسی  نے کہا یہ ذمی آدمی ہے جو کمزور اور بوڑھا ہو گیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے ذمہ جو جز یہ تھا وہ معاف کر دیا اور فرمایا پہلے تم نے اس پر جزیہ لگایا جسے وہ دیتا رہا  اب جب وہ کمزور ہو گیا ہے تو تم  نے اسے کھانا مانگنے کے لیے چھوڑ دیا ہے۔ پھر آپ نے اس کے لیے بیت المال میں سے دس درہم وظیفہ مقرر کیا۔

 ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک بوڑھے ذمی پر گزر ہوا جو لوگوں سے مسجدوں ک دروازوں پر مانگتا پھر رہا تھا۔ حضرت عمر  نے فرمایا اے ذمی! ہم نے تم سے انصاف نہیں کیا۔ جوانی میں تو ہم تم سے جزیہ لیتے رہے اور بڑھاپے میں ہم نے تمہارا کوئی خیال نہ رکھا۔ پھر آپ نے اس کے لیے بیت المال میں سے بقدر گزارا وظیفہ جاری کر دیا۔

 

رسول اللہ ﷺ کے اخلاق کا عکس حضرات صحابہ کرام کی زندگی میں:

حضرت عبدالرحمن بن عثمان قریشی ﷺ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور ﷺ اپنی بیٹی کے  پاس تشریف لے گئے۔ وہ (اپنے خاوند ) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا سر دھو رہی تھیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا اے بیٹا! ابوعبد اللہ یعنی حضرت عثمان  رضی اللہ عنہ کے ساتھ اچھا سلوک کیا کرو کیونکہ میرے صحابہ میں سے سب سے زیادہ ان کے اخلاق مجھ سے مشابہ ہیں ۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضور  ﷺ  کی بیٹی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی اہلیہ محترمہ حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا ان کے ہاتھ میں کنگھی تھی انہوں نے کہا ابھی حضور  ﷺ میرے پاس سے باہر تشریف لے گئے ہیں میں ان کے سر کے بالوں میں کنگھی کر رہی تھی۔ حضور ﷺ نے فرمایا ان کا اکرام کرتی رہو کیونکہ وہ اخلاق میں میرے صحابہ میں سے میرے سب سے زیادہ مشابہ ہیں ۔

 

حاصل کلام:

حضرات صحابہ کرام ہی وہ واحد ہستیاں ہیں کہ جنہوں نے رسول اللہﷺ کی  صحبت میں دس سال گزارے وہ بھی صحابی جنہوں نے پانچ سال گزارے وہ بھی صحابی جنہوں نے ایک سال گزارا وہ بھی صحابی جنہوں نے ایک لمحے کی صحبت پائی وہ بھی صحابی  سبحان اللہ !  آج چودہ سو سال بعد بھی ہمیں صحابہ کرام کی زندگی کو قرآن اور  احادیث  کے آئینے میں ہر لمحے دیکھنا ہو گا۔ کیونکہ  صحابہ کرام آپ ﷺ  کی زندگی کا عملی نمونہ تھے

 

الله سبحان و تعالٰی قرآن پاک میں رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کے بارے میں فرماتے ہیں:

 

وَ السّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ  مِنَ الۡمُہٰجِرِیۡنَ وَ الۡاَنۡصَارِ وَ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡہُمۡ بِاِحۡسَانٍ ۙ رَّضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ وَ رَضُوۡا عَنۡہُ وَ اَعَدَّ لَہُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ تَحۡتَہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ  اَبَدًا ؕ ذٰلِکَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ

﴿سورہ التوبہ ١٠٠﴾

اور مہاجرین اور انصار میں سے جو لوگ  پہلے  ایمان لائے ، اور جنہوں نے  نیکی  کے ساتھ ان کی پیروی کی ، اللہ ان سب سے  راضی  ہوگیا ہے ، اور وہ اس سے  راضی  ہیں ، اور اللہ نے ان کے لیے ایسے باغات  تیار  کر رکھے ہیں  جن  کے  نیچے  نہریں بہتی ہیں ،  جن  میں وہ  ہمیشہ  ہمیشہ رہیں گے ۔ یہی بڑی زبردست کامیابی ہے ۔

 

آپﷺ کا فرمان ہے:

 میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں تم میرے صحابہ میں سے جس کی اقتدا کرو گے  ہدایت پا جاؤ گے

 

 

جزاکم اللہ خیرا کثیرا