بسم ﷲ الرحمٰن الرحیم

محسن انسانیت ﷺ بحیثیت قائد

 

 

Daniya Mehreen

TIL Graduate of 2021

 

 

 

حضرت محمد ﷺ کی حیات مبارکہ صرف اخروی رہنمائی کے لئے ہی نہیں، بلکہ دنیوی کامرانی کے لیے بھی بہترین رہنما ہے۔ نبی کریم ﷺ ہر سمت سے بہترین تھے، اور اسی طرح آپ ایک بہترین قائد بھی تھے۔

ایک انقلابی قائد ایسا مربی اور رہنما ہوتا ہے جو کسی حالت میں بھی اپنی قوم کی اصلاح سے دست بردار نہیں ہوتا ۔ اور وہ جاتے جاتے دنیا میں اپنی انقلابی سوچ اور قائدانہ صلاحیتوں کا نقش چھوڑ جاتا ہے۔ ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ کی شخصیت بھی انہیں صفات کی حامل تھی۔ قیادت کے کچھ اوصاف جو ایک حقیقی قائد میں ہوتا ہے، وہ نبیﷺ کی سیرت سے جان سکتے ہیں اور آپ کی حیات مبارکہ کو نمونہ بنا کر ایک قائد اپنے قوم کا انقلابی قائد بن سکتا ہے ۔

  • مشفق اور مہربان :

ایک قائد اپنی قوم اور ماتحتوں کے لئے شفیق ہوتا ہے ۔پیارے نبی ﷺ ہر کسی کے ساتھ شفقت کرنے والے تھے۔ چھوٹوں، بڑوں، عورتوں، بوڑھوں پر مہربان تھے، یہاں تک کہ اللہ رب العزت نے قرآن میں نبی کریم ﷺ کو رؤوف فرمایا ۔

ارشاد فرمایا: لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُولٌۭ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِٱلْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌۭ رَّحِيمٌۭ  ٩:١٢٨

آچکا ہے تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک رسول، بہت بھاری گزرتی ہے آپ ﷺ پر تمہاری تکلیف، تمہارے حق میں آپ ﷺ (بھلائی کے) بہت حریص ہیں، اہل ایمان کے لیے شفیق بھی ہیں رحیم بھی

 

  • بہادری اور محنت:

ایک قائد اپنےباوصاف کی وجہ سے ہی کامیاب قرار کیا جاتا ہے، قائد کے لئے ضروری ہے کہ وہ بہادر ہو اور محنت کرنے میں پہل کرنے والا ہو۔ سرکار محمد ﷺ کی ذات مبارک دلیری اور شجاعت کی مکمل تصویر تھی۔ احادیث میں جگہ جگہ آپ ﷺ کی بہادری کا ذکر کیا گیا ہے۔

ایک روایت میں ہے “خدا کی قسم! جب جنگ تیز ہوتی تو ہم خود کو حضور ﷺ کی پناہ میں بچاتے تھے اور ہم میں سب سے بہادر شخص وہ ہوتا تھا جو جنگ میں آپ ﷺ کر برابر رہتا” (اخرجہ مسلم فی الصحیح)

 

  • افراد سازی :

آپ ﷺ اپنے ساتھیوں کو پرکھنے اور ان کی صلاحیتیں جانچنے میں بھی نمایاں حیثیت رکھتے تھے۔ آپﷺ ہر آدمی کو اس کے طبیعت کے مناسب ذمہ داری دیتے۔ جو طاقتور ہوتا اسے امیر بناتے، لیکن ہر کسی کو انکی صلاحیت کے موافق ذمہ داری دیتے۔ ایک روایت میں ہے کہ سیدنا ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ سے امارت کی درخواست کی تو آپﷺ نے فرمایا:

 

((ويَا أَبَا ذَرٍّ، إِنَّكَ ضَعِيْفٌ، وَإِنَّهَا أَمَانَةٌ، وَإِنَّهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ خِزْيٌّ وَ نَدَامَةٌ إِلَّا مَنْ أَخَذَهَا، وَأَدَّى الَّذِي عَلَيْهِ فِيهَا))

’’اے ابوذر! تم کمزور ہو اور یہ بہت بڑی امانت ہے اور روز قیامت رسوائی اور ندامت کا باعث ہے، سوائے اس کے جس نے اسے حق کے ساتھ قبول کیا اور اس کے بارے میں جو ذمہ داری اس پر عائد ہوئی تھی، اسے اچھی طرح ادا کیا۔‘‘ (صحيح مسلم، الإمارة، حديث: 1825)

  • معاملات میں دور اندیشی:

ایک قائد اپنے کاموں کو ترتیب دیتے ہوئے ان کاموں کے نتائج اور مستقبل میں اس عمل کے اثرات کا جائزہ ضرور لیتا ہے ۔

غزوہ احد پہاڑی جنگ تھی آقا علیہ السلام نے پچاس مجاہدوں کی ایک درّے پر ڈیوٹی لگادی کہ آپ سب اس درّے پر کھڑے رہنا۔ اور صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا تم نے یہاں سے ہٹنا نہیں یہاں تک کہ میں آپ کو حکم نہ دوں کہ درّہ چھوڑ دو۔ جب جنگ فتح ہونے لگی، صحابہ کرام کو لگا یہ جنگ ختم ہو چکی ہے، اب حکم ختم ہوا اور وہ وہاں سے ہٹ گئے۔ جس کے نتیجے میں کفار کو ایک موقعہ مل گیا ادھر سے حملہ کرنے کا۔

معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ  کا واضح نظریہ ہوتا تھا اور وہ صرف روحانی دائرے تک محدود نہیں ہوتی تھی۔ اس میں معاشرے کے سماجی، معاشی اور سیاسی پہلوؤں کو بھی شامل کیا جاتا۔

 

  • فیصلہ سازی اور مشاورت:

سرکار دو عالم ﷺ کے فیصلے ہمیشہ بہترین، وقت کے مناسب ہوتے تھے۔ ابتدا میں جب مسلمان  تھوڑے تھے اور کمزور لگتے تھے، کھلم کھلا توحید کی دعوت نہیں دی ۔اس کے علاوہ نبوت سے پہلے حجر اسود کے نصب کرنے کا فیصلہ وغیرہ، حضور ﷺ کے فیصلے غیروں کے دلوں کو موہ لیتے تھے۔

اور نبیﷺ ہمیشہ اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے اہم امور میں مشورہ کیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ یہ سوال تھا کہ قیدیوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے ؟ اس معاملہ میں حضور ﷺ نے ایک دفعہ پھر صحابہ سے مشورہ طلب فرمایا ۔ اس کے جواب میں حضرت ابوبکر صدیقؓ کا مشورہ تھا کہ ان قیدیوں کے ورثاء سے فدیہ لے کر ان کی جان بخشی کر دی جائے۔ یوں جہاں فدیہ کے مال سے دشمن کے مقابلہ میں مسلمانوں کی قوت میں مزید اضافہ ہوگاوہاں یہ بھی امید ہوگی کہ ان رہا شدہ قیدیوں کو شاید اللہ تعالیٰ ہدایت دے دے اور یہ اسلام قبول کرلیں۔ جبکہ حضرت عمرؓ نے کہا کہ ان لوگوں نے خدا کے رسول کو تکلیف پہنچائی ہے اور یہ سب آئمۃالکفر ہیں لہذا ان کا قتل کرنا ہی بہترہے۔

آنحضرت ﷺ نے دونوں مشورے سنے اور رحمت کا پہلو اختیار کرتے ہوئے حضرت ابوبکرؓ کی رائے کے مطابق فیصلہ صادر فرمایا۔

(صحیح مسلم)

 

  • عوامی رابطہ

بحیثیت قائد آپؐ نے یہ تصور بھی عام کیا کہ عوام کو حق ہے کہ وہ قائد کے ہر اُس کام پر بازپرس کرے جو غیرضروری ہے۔ نیز آپ علیہ السلام مشرکین سے، بچوں سے کلام فرماتے اور انکے مسائل معلوم کرتے تھے۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سکھایا کہ کسی مزدور نے اپنا کام مکمل کیا ہے تو فوراً اس کا حق دیا جائے۔ آپؐ نے فرمان جاری کیا کہ مزدور کو اس کا پسینہ خشک ہونے سے قبل ہی اس کی مزدوری دے دی جائے۔ (سنن ابن ماجه، ج: 2، ص: 817، رقم الحدیث: 2443)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ اور عمومی نقطہ نظر یہ تھی کہ

’’اگر ایک شخص تمہارے ذریعے اسلام لے آئے تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے سرخ اونٹوں کا مالک ہونا۔‘‘ (البخاری و مسلم)

اور یہ کہ ایک قائد اپنے ماتحتوں کا خیال رکھے۔ روزِ قیامت جب کوئی کسی کا نہ ہوگا اُس سے ان کے ماتحتوں کے بارے میں بازپرس کی جائے گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری حج میں صحابہؓ کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا: ’’کیا میں نے تم لوگوں تک خدا کا پیغام (دستورِ حیات) پورا پورا پہنچا دیا ہے؟‘‘ صحابہ نے جواب دیا: ’’ہاں‘۔ (مجمع الزوائد:۳؍۲۶۹)

  • یکسانیت برتنا:

نبی ﷺ نے ہمیشہ سب کے لئے ایک جیسا قانون بنایا، جس میں مساوات اور برابری ہو۔ رسول اللہ ﷺ کی قیادت میں عرب عجم، گورے کالے، مختلف خاندانوں والے سب قانون کے سامنے برابر اور یکساں دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ جنکو دنیا کے حکمران ذلیل کر دیتے تھے، نبی ﷺ انکو عزت دیتے تھے۔ انصاف اور عدل اور قیادت کے ان طریقوں اور اصولوں کی خوبصورتی ہمیں راہ دکھاتی ہے کہ ایک قائد ہو تو کیسا ہو۔ اور آپ ﷺ کی زندگی اتنی مثالی تھی کہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین آپ پر جان نثار کرتے تھے ۔

حُسنِ یوسف پہ کٹیں مصر میں اَنگشتِ زَناں

سر کٹاتے ہیں تیرے نام پہ مردانِ عرب

وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین!!!

 

 

جَزَاكَ ٱللَّٰهُ