بسم ﷲ الرحمٰن الرحیم

مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک

 

 

عالیہ بی بی

TIL Women Urdu – Year 5

سبحان الذی اسری بعبدہ لیلا من المسجد الحرام الی المسجد الاقصی الذی برکنا حوله لنریه من آیاتنا انه هو السميع العليم  (سورۃ اسرائیل آیت١)

 

وہ سرور کشور رسالت جو عرش پر جلوہ گر ہوئے تھے

نئے نرالے طرب کے ساماں عرب کے مہمان کے لئے تھے

 

جب سیر کا لفظ بولا جائے تو چھ سولات ذہن میں ابھرتے ہیں۔۔۔انہی سولات کا جواب ہے یہ آیت کریمہ

 

سبحن الذی اسری

 سیر کس نے کروائی؟

پاک ہے وہ ذات جس نے سیر کروائی

وہ سبحن ہے سیر کروانے والا ہر قسم کے عیوب و نقائص سے مبراء و منزہ ہے

وہ بیٹوں سے پاک ہے

وہ شریکوں سے پاک ہے

ہر عیب سے پاک ہے

 

بعبده

سیر کرنے والا عبد خاص جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ؟

عبد کا اطلاق روح اور جسم دونوں پر ہے

یوں نہیں کہ روح انسان میں نہ ہو

وہ عبادت کرے

مردہ کیسے عبادت کر سکتا ہے

 اور جب کسی کو سیر کرانے کا وعدہ کریں تو کیا صرف روح کو سیر کروائیں گے؟

 

لیلا

سیر کا وقت رات کا تھا کیونکہ ہوسکتا ہے محبوب کے لئے دن کو سفر دشوار ہو

اسی لئے رات کو بلایا کہ بادشاہ رات کو اپنے پاس خاص اور راز و نیاز کی باتیں کرنے کے لئے اسی کو بلاتے ہیں جو ان کے نزدیک ساری مملکت اور ساری رعیت میں خاص اور منظور نظر ہوتا ہے

اسی لئے فرمایا   ومن الیل فتھجد به نافلة لک   الاسراء آیت 79

 

من المسجد الحرام

اگلے سوال کا جواب ہے کہ ابتدا مسجد الحرام سے ہوئی؟

حضرت ام ہانی بنت ابو طالب رضی اللہ عنہا کے گھر اور مسجد الحرام کی مشترکہ دیوار ہے

رسول اللہ آرام فرما رہے ہیں

خود فرماتے ہیں

انا بين النوم ولیقظه

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوائے غزوات اور حج کے کوئی شب اپنے بیت مبارک سے باہر نہیں گزاری ۔ آج کیا ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف فرما ہیں

اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم تھا کہ اب یہ قانون نافذ ہوگا

 

لا تدخلوا بیوت النبی الا ان یوذن لکم

(الاحزاب آیت 53)

 

مگر اج جبرئیل علیہ السلام نے پہلی بار بغیر اجازت داخل ہونا تھا اسی لئے اپنے گھر کو چھوڑ دیا تاکہ جبرئیل گرفت میں نہ آئے

چنانچہ یہ پیغام جبرائیل علیہ السلام نے آپ کو دیا

ان الله اشتاق الی لقائک یا رسول الله

بے شک اللہ تعالٰی آپ کی ملاقات کا مشتاق ہے یا رسول الله

 

الی المسجد الاقصی

منتہائے سفر ہے مسجد اقصی اور وہاں سے اگلا سفر شروع ہونا تھا

مسجد اقصی میں تمام انبیاء و رسل علیھم السلام محو انتظار تھے جو اپنی اپنی قبروں کو چھوڑ کر مسجد اقصی میں پہنچے تھے

فرمایا

 

اقصی الذی برکنا حوله

وہ مسجد اقصی جس کے ارد گرد ہم نے برکت رکھ دی

کیا مسجد کے اندر برکت نہ تھی؟

تھی مگر اللہ تعالٰی کو معلوم تھا کہ اندر کی برکات کو تو تمام لوگ تسلیم کریں گے مگر ارد گرد کی برکات کو ایک قوم تسلیم نہ کرے گی کیونکہ مسجد اقصی کے ارد گرد ستر ہزار انبیاء علیہم السلام کی قبریں ہیں

 

لنریه من آیاتنا

اس سیر کا مقصد کیا ہے، ؟

تاکہ ہم اسے اپنی نشانیاں دکھائیں اور یہ اس سیر کا مقصد ہے

وہاں کیا دیکھا

لقد رائ من ایت ربه الکبری

اور کیا بڑی نشانی دیکھی

تو حدیث مبارکہ میں اس کا جواب ہے

رايت ربی فی احسن صورة

میں نے اپنے رب کو بڑی احسن صورت میں دیکھا

 

انه ھو السمیع البصیر

علماء نے لکھا ہے هو ضمیر کا مرجع اللہ تعالٰی بھی ہو سکتا ہے اور اللہ تعالٰی کا محبوب بھی

اگر انسان سمیع و بصیر ہو سکتا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بدرجہ اولی ہو سکتے ہیں

ملاحظہ فرمائیں اللہ تعالی نے انسان کے بارے میں فرمایا

فجعلناه سمیعا بصیرا       (الانسان آیت 2)      

پس ہم نے بنا دیا اس کو سمیع و بصیرا

معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بھی یہاں مراد ہو سکتی ہے

 

محمد مظہر کامل ہےحق کی شان عزت کا

نظر آتا ہے اس کثرت میں کچھ انداز وحدت کا

صلی الله علیہ وسلم