بسم ﷲ الرحمٰن الرحیم

میری محبت سب محبتوں پرغالب

 

 

عائشہ انجم

TIL Women Urdu – Year 5

 

 

تیری فطرت میں ہے اگر حُب نبی ﷺ کے جوہر

    پھر تو ہر ایک بلندی پہ قدم تیرے ہیں

ہے زمانے میں  سدا عشق نبی ﷺ ہی غالب

   اُن کا بن جا! تو قیادت کے علم تہرے ہیں

 

ہم نے اکثر دیکھا ہے کہ ہمارے آس پاس کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کو دیکھ کر  ہم چاہتے ہیں کہ ہم بھی ایسے بن جائیں ، فلاں کتنا اچھا انسان ہے ، کتنی اچھی ماں ہے ، کتنی خوبصورت ہے ، اس کا لباس بہت پیارا تھا وغیرہ ۔ہم کچھ لوگوں سے بلاوجہ غیر اختیاری طور پر متاثر ہو جاتے ہیں حالانکہ ہم ان لوگوں میں فقط ایک یا دو  مثبت چیزیں  دیکھتے ہیں ۔ہم دل ہی دل میں اس انسان سے محبت کرنے لگتے ہیں ۔اسے اپنا آئڈیل بنا لیتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ ہمیں بھی ان جیسا بننا ہے ۔چاہے وہ کوئ بھی رشتہ ہو جیسے آج کل ہم دیکھیں تو کوئ کسی کے لیے جان دے رہا ہے ،تڑپ رہا  ہے کہ ہم نے اس سے ملنا ہے حالانکہ اسے ہماری پرواہ بھی نہیں ہو گی  ۔ یہ فانی دنیا جہاں نفسا نفسی کا عالم ہے اس کی محبت ہمیں کیا دے سکتی ہے صرف دو دن کی چاندنی پھر اندھیری رات!!   تو پھر کیا ہمیں ایسی زات سے محبت نہیں کرنی چاہیے کہ جس کو پا کر ہم امر ہو جائیں!

 

خواہشِ زات بہت ساتھ دیا اب تک تیرا

اب جدھر میرے محمد ﷺ ہیں وہاں جانے دے

 

 

آئیڈیل  شخصیت

ایک شخصیت ایسی جو امتِ مسلمہ میں ہر ایک شخص کے لیے روئ ہے ۔وہ آپ کے لیے روئ ، میرے لیے روئ اور ہم انہیں کسی بھی زاویہ سے دیکھیں تو کہیں سبحان اللہ!! ان کی سیرت کے متعلق جاننے کے لیے جتنا غوطہ زن ہوں تو لگتا ہے کہ محبت کا سمندر ہے جو ختم نہیں ہو سکتا ۔

 

دنیا کی سب سے بہترین  شخصیت _ میرے پیارے نبی کریمﷺ!!!

ایک ہی سوال کیا گیا کہ میرے محبوب! کیا مانگیں گے ۔۔فرمایا: میری امت کی مغفرت۔ اتنی محبت کرنے والی زات کہ  ہم احادیث کی کتاب اٹھائیں تو ہمیں ان میں  کسی بھی مسئلے کا حل ، قرآن پاک کا عملی نمونہ مل جاتا ہے ۔

نبی کریم ﷺ نے معراج کے موقع پر پچاس نمازوں سے پانچ نمازیں کروائیں کہ میری امت کو تکلیف نہ ہو ۔ مسواک کا حکم نہیں دیا کہ میری امت کو مشکل پیش نہ آۓ اور بھی بہت احکامات میں آپ نے امت کا خیال رکھا ۔  ہم گناہوں میں اتنا غرق ہو چکے ہیں کہ اب تک بندر بنا دیے جاتے لیکن وجہ صرف ہمارے پیارے نبی کریمﷺ ۔

آپ کی کیفیت اپنی امت کے معاملہ میں ایسی ہوا کرتی تھی کہ جیسے ہم سب جہنم کے گڑھے میں گر رہے ہوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں کھینچ کھینچ کر بچا رہے ہیں ۔

 

 

نبی کریم ﷺ سے محبت شرطِ ایمان

جب کوئ عام انسان  ہم سے اچھا معاملہ رکھتا ہے تو وہ بھی ہم سے حسنِ ظن رکھتا ہے ۔

یقیناً جس زات نے ہمارے لیے تکلیفیں اٹھائیں ، ہمیں ہر طرح سے سمجھایا  جیسا کہ فرمایا

تم لوگ میرے بعد بہت شدید اختلافات دیکھو گے پس تم لوگوں پر لازم ہے کہ تم میری سنت کو اورخلفائے راشدین   ہدایت یافتہ کی سنت کو لازم پکڑنا اور ان کو  اپنی داڑھوں سے پکڑلینا یعنی مضبوطی سے تھام لینا” ۔(ابن ماجہ)

تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق میں سے ایک حق یہ بھی ہے کہ ہم آپ صلی الله علیہ وسلم سے اپنے مال اولاد ، والدین ، ہر چیز سے بڑھ کرمحبت کریں ۔ یہ محبت ہم پر لازم و ملزوم ہے

 

کامل مومن کون ہے ؟

 

” آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے لڑکے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے کنبے قبیلے اور تمہارے کمائے  ہوئے مال اور  وہ تجارت جس کی کمی سے تم  ڈرتے ہو اور  وہ حویلیاں جسے تم پسند کرتے ہو اگر یہ تمہیں اللہ سے اور اس کے رسول ﷺ سے اور اس کی راہ  کے جہاد سے بھی زیادہ  عزیز ہیں تو تم انتظار کرو کہ اللہ تعالیٰ اپنا عذاب لے آئے،  اللہ تعالیٰ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔” (التوبہ  24 ) ۔

 

کیا یہ آیت دل دہلا دینے کے لیے کافی نہیں ہے کیونکہ دیکھا جاۓ تو اس دور فتنہ میں ہم سب ایک جہاد میں ہیں ۔جہاد فی النفس ۔فی الحال صرف اس جہاد کی بات کریں تو ہمارا نفس ہمارا ضمیر سب بک چکا ہے ۔ہم صرف زبان سے کہتے کہ ہم نبی کریم ﷺ سے محبت کرتے ہیں ۔محبوب تو وہ ہوتا ہے جس کے لۓ ہم کہیں کہ ہم اس کے لیے اپنا تن من دھن سب قربان کرتے ہیں ۔ہم صرف زبان سے اقرار کریں اور مغربی تہذیب کی واہ واہ کریں ایسے علامہ اقبال کا شعر یاد آیا

 

عشق قاتل سے بھی مقتول سے ہمدردی بھی

یہ بتا کس سے محبت کی جزا مانگے گا

سجدہ خالق کو بھی ابلیس سے یارانہ بھی

حشر میں کس سے عقیدت کا صلہ مانگے گا

 

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہيں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

”تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک (کامل) مؤمن نہیں ہو سکتا، جب تک میں اس کے نزدیک اس کے والد، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں“

نبی کریمﷺ کی محبت ہر محبت پر غالب ہونی چاہیے ۔

 

 

عملی محبت

 سیدنا عبداللہ بن ہشامؓ اس  طرح نقل کرتے ہیں کہ ہم ایک مرتبہ نبی کریم کے ساتھ تھے اور آپ سیدنا عمر بن الخطابؓ  کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے۔ سیدناعمر ؓ نے عرض کیا  یا رسول اللہ!  یقینا آپ مجھے ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں سوائے میرے نفس کے  جس پر نبی کریم نے ارشاد فرمایا:

” نہیں، اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے یہاں تک کہ میں تمہارے نزدیک تمہارے نفس سے بھی زیادہ محبوب ہوجاؤں۔” یعنی اس وقت تک تمہارا ایمان کامل نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں تمہارے نزدیک تمہاری جان سے بھی زیادہ محبوب نہ بن جاؤں۔زبانِ رسالتؐ سے یہ بات سننی تھی کہ سیدنا عمر ؓ نے عرض کیا ” ہاں! اللہ کی قسم ، اب آپ  مجھے اپنے نفس سے بھی  زیادہ محبوب ہیں۔”

رسول اللہ نے ارشاد فرمایا ” ہاں اب اے عمر۔”  یعنی اب تمہارا ایمان مکمل ہوا(صحیح بخاری)۔

 

نبی کریم ﷺ کی شفاعت

کامل مؤمن ہم تب ہی بن سکتے ہیں جب تک ہمارا نفس ، ہمارا آرام و آرائش سب اللہ اور اس کے آخری نبی ﷺ پر قربان نہ ہو جاۓ ۔ ہم قیامت کہ دن بول سکیں کہ یا رسول اللہ ہم نے آپ سے محبت کی ، آپ کی احادیث پر عمل کیا ، ہم نے ان پرنور لوگوں سے محبت کی جو آپ کی احادیث پڑھ کے ہمیں سناتے تھے ۔ یا رسول اللہ! جب کفار ناموس رسالتﷺ پر حملہ کر رہے تھے تو ہم نے صرف دیکھا نہیں بلکہ ان سے اللہ اور آپ صلی الله عليه وسلم کے لیے لڑے ۔یا رسول اللہ ہم نے اپنی زندگیوں میں سنتوں کو زندہ کیا ۔ہم نے آپ سے عملی محبت کی اور نبی کریمﷺ ہماری طرف مسکرا کر دیکھیں اور آپ کی شفاعت حاصل ہو جاۓ۔اللہ اکبر!

 

میں نے پسند ذات محمد کو کر لیا

لاۓ کوئ مثال میرے انتخاب کی

 

 

صحابہ کرام اللہ اجمعین کا نبی کریم ﷺ سے عشق

 مدینہ منورہ میں رئیس المنافقین عبداللہ بن اُبی  تھا لیکن ان کے بیٹے سیدنا عبداللہ مشرف  اسلام ہوچکے تھے ۔ وہ مخلص  و صادق  اہل ایمان میں سے تھے اور اُن پر اپنے والد کا نفاق بھی ظاہر تھا۔ ایک مرتبہ مدینہ میں یہ افواہ پھیل گئی کہ رسول اللہ  نفاق کی وجہ سے عبداللہ بن ابی کے قتل کا حکم دینے والے ہیں۔ یہ خبر جب ان کے لڑکے  سیدنا عبداللہ تک پہنچی تو رسول اللہ   کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا:

     ” یا رسول اللہ ! اگر آپ  چاہیں تو اپنے باپ (عبداللہ بن ابی) کا سر کاٹ کر آپ  کی خدمت میں پیش کردوں ” لیکن آپ نے منع فرما دیا کہ آپ دشمنوں کیلئے بھی شفیق و مہربان تھے   اور ان کی  ہدایت کیلئے فکر مند  رہا کرتے تھے۔

ایک صحابی فرماتے ہیں مجھے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   اہل و عیال سے بھی  زیادہ  محبوب تھے۔ جب کبھی آپ ﷺ  کی یاد آتی تو میں گھر میں ٹک نہیں سکتا تھا جب تک  کہ آپ  کی خدمت میں آکر آپ کو دیکھ نہ لیتا، تسلی نہ پاتا۔

 

    صحابہ کرامؓ  کی رسول اللہ سے بے پناہ محبت اور جانثاری کی بے نظیر مثالیں سیرت میں موجود ہیں جن سے یہ حقیقت بالکل عیاں ہے کہ اہل ایمان سے جس محبتِ نبویؐ کا مطالبہ کیا گیا تھا ان کے نزدیک رسول  اللہ ماں باپ،  اولاد اور اپنی جانوں سے  بھی زیادہ محبوب ہوں۔ یقینا صحابہ کرامؓ نے رسول اللہ سے ایسی ہی محبت کرکے دکھائی۔  ان کے ہاں صرف محبت اور عشق رسول کے دعوے نہیں تھے بلکہ عمل سے وہ اس کا ثبوت بھی فراہم کرتے تھے۔

 

 

کیا اللہ سبحان وتعالی یا نبی کریم ﷺ کو ہمارے اعمال کی ضرورت ہے ؟

اگر ہم اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو محبوب نہیں رکھیں گے تو  اس میں ہمارا اپنا نقصان ہے ۔صحابہ کرام رضی الله تعالٰی اجمعین نے تو اپنے ہاتھوں پہ نبی کریمﷺ کی طرف آتا ہوا تیر تک کھایا ہے۔آپ کی صحبت کے لیے اپنا گھر  ،والدین، مال و دولت سب چھوڑ دیا۔ اس دنیا میں جو جتنی عملی محبت کرتا گیا وہ اپنی منزل پاتا گیا ہے ۔اب ہم نے اپنی دنیا و آخرت خوش و خرم گزارنی ہے یا نہیں یہ ہم پہ منحصر ہے  کیونکہ اللہ سے ملاتے ہیں سنت کے راستے

 

 

اللہ اور اسکے نبی ﷺ سے محبت کرنے والے شان سے آتے ہیں اور شان سے جاتے ہیں

اللہ سببحان وتعالی ہمیں نبی کریمﷺ کے سچے عاشقوں میں سے بنا دے ۔ہم بھی قیامت کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا جام نوش کریں ۔ آمین ثم آمین

 

 

جَزَاكَ ٱللَّٰهُ