بسم ﷲ الرحمٰن الرحیم

حضور اقدس ﷺ کے حلیہ مبارکہ

 

 

Marium Siddiqui

TIL Women Urdu – Year 6

 

 

میں الله تعالى کی تعریف کرتی ہوں جس نے ہماری طرف ایک رسول بھیجا جو عربی، ہاشمی، مکی، مدنی، سردار، امین سچی خبریں دینے والے اور جس کے بارے میں سچی خبریں دی گئیں قریشی ہیں۔ الله تعالى آپ ﷺ پر اور آپ ﷺ کی آل و اصحاب پر جو آپ ﷺ سے خاص محبت کرنے والے اور منتخب رازدار تھے رحمت فرمائے۔ آمین!

 

حضرات صحابہ کرام کا امت پر نہایت ہی بڑا احسان ہے کہ حضور ﷺ کے کمالاتِ معنوی علوم و معارف کے ساتھ ساتھ کمالاتِ ظاہری حسن و جمال کی بھی امت تک تبلیغ فرمائی۔

حضرت حسن بن علی نے اپنے ماموں جان ہند بن ابی ہالہ سے حضور ﷺ کا حلیہ پوچھا (وہ حضور ﷺ کی صفات کو ذکر اکثر کیا کرتے تھے): “میں امید کرتا ہوں کہ وہ اوصاف میرے سامنے بھی بیان کریں جس کو میں ذہن نشین کرلوں۔” انہوں نے فرمایا: “رسول الله ﷺ اپنی ذات میں عظیم تھے اور نظروں میں بھی معظم تھے۔” (شمائل ترمذي ، باب ما جاء في خلق رسول الله ﷺ)

 

  • چہرہ مبارک:

آپ ﷺ کا چہرہ مبارک چودہویں رات کے چاند کی طرح چمکتا تھا۔

حضرت جابر فرماتے ہیں: “میں ایک مرتبہ چاندنی رات میں حضور ﷺ کو دیکھ رہا تھا، حضور ﷺ اس وقت سرخ جوڑا زیب تن فرما تھے، میں کبھی چاند کو دیکھتا تھا اور کبھی آپ ﷺ کو، بالآخر میں نے یہ ہی فیصلہ کیا کہ حضور ﷺ چاند سے کہیں زیادہ جمیل و حسین اور منور ہیں۔”

 

  • قد مبارک:

آپ ﷺ کا قد مبارک بالکل متوسط قد والے آدمی سے کسی قدر طویل تھا لیکن زیادہ لمبے قد والے سے پست تھا۔

یہ صفات مردوں کے لئے محمود ہیں کیونکہ یہ قوت اور شجاعت کی علامت ہیں۔  سبحان الله!

؎

  • سر مبارک:

آپ ﷺ کا سر مبارک اعتدال کے ساتھ بڑا تھا۔

 

  • بال مبارک:

آپ ﷺ کے سر کے بال مبارک سیدھے اور کچھ بل دار تھے۔ اگر سر کے بالوں میں اتفاقا خود مانگ نکل آتی تو مانگ رہنے دیتے، ورنہ آپ ﷺ خود مانگ نکالنے کا اہتمام نہ فرماتے تھے۔

 

  • رنگ مبارک:

سعید جریری کہتے ہیں کہ میں نے ابو الطفیل رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ حضور ﷺ کے دیکھنے والوں میں اب روئے زمین پر میرے سوا کوئی نہیں رہا۔ میں نے ان سے کہا کہ مجھ سے حضور ﷺ کا حلیہ بیان کیجئے۔ انہوں نے فرمایا کہ حضور ﷺ سفید رنگ تھے ملاحت کے ساتھ یعنی سرخی مائل اور معتدل جسم والے تھے۔

 

  • ابرو مبارک:

آپ ﷺ کے ابرو خمدار، باریک اور گنجان تھے۔ دونوں ابرو جدا جدا تھے ایک دوسرے سے ملے ہوئے نہیں تھے، ان دونوں کے درمیان ایک رگ تھی جو غصہ کے وقت ابھر جاتی تھی۔

 

  • ناک مبارک:

آپ ﷺ کی ناک مبارک بلندی مائل تھی۔ ناک مبارک پر ایک نور چمکتا رہتا تھا، ابتداءً دیکھنے والا آپ ﷺ کو بڑی ناک والا گمان کرتا لیکن غور کرنے سے معلوم ہوتا کہ نور کی چمک کی وجہ سے بلند لگتی ہے ورنہ اتنی لمبی نہیں تھی۔

 

  • داڑھی مبارک:

آپ ﷺ کی داڑھی مبارک بھرپور اور گنجان بالوں والی تھی۔

 

  • رخسار مبارک:

آپ ﷺ کے رخسار مبارک نازک تھے یعنی گوشت سے بھرے ہوئے تھے حلقے پڑے ہوئے نہیں تھے لیکن اتنا گوشت بھی نہیں تھا کہ لٹکے ہوئے ہوں بلکہ حسن کے اعلیٰ معیار کے ساتھ نازک تھے۔

 

  • دہن مبارک:

آپ ﷺ کا دہن مبارک اعتدال کے ساتھ فراخ تھا۔

 

  • دندان مبارک:

آپ ﷺ کے دندان مبارک باریک آبدار (سفید چمکیلے) تھے اور سامنے کے دانتوں میں ذرا ذرا فاصلہ تھا۔

ابن عباس رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ کے اگلے دانت کچھ کشادہ تھے۔ جب آپ ﷺ تکلم فرماتے تو ایک نور سا ظاہر ہوتا جو دانتوں کے درمیان سے نکلتا تھا۔

 

            حیا سے سر جھکا لینا ادا سے مسکرا دینا

         حسینوں کو بھی کتنا سہل ہے بجلی گرا دینا

  • دیگر اعضاء اور بدن مبارک:

آپ ﷺ کے سارے اعضاء معتدل اور گوشت سے بھرے ہوئے تھے اور بدن مضبوط اور قوی تھا۔ پیٹ اور سینہ مبارک برابر تھا۔ یعنی پیٹ سینہ سے آگے نکلا ہوا نہ تھا لیکن چوڑا تھا۔ آپ ﷺ کے دونوں مونڈھوں کے درمیان کچھ زیادہ فاصلہ تھا۔ جوڑوں کی ہڈیاں قوی اور بڑی تھیں۔ آپ ﷺ کے بدن کا وہ حصہ جو کپڑوں سے باہر رہتا تھا روشن اور چمکدار تھا تو جو حصہ کپڑوں سے ڈھکا رہتا ہو وہ کیسا چمکتا ہوگا۔ سینہ اور ناف کے درمیان بالوں کی ایک لکیر تھی اور ان بالوں کے علاوہ چھاتی اور پیٹ پر بال نہ تھے لیکن دونوں بازو اور کندھوں اور سینہ کے بالائی حصہ پر مناسب مقدار میں بال تھے۔

 

آپ ﷺ کی کلائیاں لمبی تھیں۔ ہتھیلیاں چوڑی تھیں۔ آپ ﷺ کی دونوں ہتھیلیاں اور قدم نرم و ملائم تھے۔ ہاتھ پاؤں کی انگلیاں مناسب لمبی تھیں۔ آپ ﷺ کے اعصاب برابر تھے۔ آپ ﷺ کے تلوے گہرے تھے۔ یعنی چلنے میں زمین کو نہ لگتے تھے۔ قدم مبارک ہموار اور ایسے صاف تھے کہ پانی ان پر صاف ستھرے اور چکنے ہونے کی وجہ سے ٹھرتا نہیں تھا۔

 

آپ ﷺ جب چلتے تو قوت سے قدم اٹھاتے اور آگے جھک کر چلتے۔ قدم زمین پر آہستہ آہستہ سے پڑتا تھا۔ زور سے نہیں پڑتا تھا۔ ذرا کشادہ قدم رکھتے تھے۔ چھوٹے چھوٹے قدم نہیں رکھتے تھے۔

جب کسی کی طرف توجہ فرماتے تو پورے بدن کو پھیر کر اس کی طرف توجہ فرماتے۔ آپ ﷺ نگاہ نیچی رکھتے۔ آسمان کی طرف نگاہ کرنے کی نسبت زمین کی طرف نگاہ رہتی۔ آپ ﷺ کی عادت شریفہ عام طور پر گوشۂ چشم سے دیکھنے کی تھی۔ عاجزی اتنی کہ اپنے اصحاب کو چلنے میں آگے کر دیتے۔ جس سے ملتے سلام کرنے میں خود ابتداء فرماتے۔

 

رسول الله ﷺ امت کے لئے ہر وقت غمگین اور فکر مند رہتے تھے۔ بلا ضرورت گفتگو نہ فرماتے اور اکثر اوقات خاموش رہتے تھے۔ آپ ﷺ کا کلام انتہائ جامع ہوتا کہ نہ ضرورت سے زیادہ بات ہوتی تھی اور نہ اتنی کم کہ بات ہی سمجھ میں نہ آئے۔

 

آپ ﷺ نرم مزاج تھے۔ سخت مزاج نہ تھے اور نہ ہی کسی کو ذلیل فرماتے۔ اللہ تعالیٰ کی نعمت خواہ تھوڑی بھی ہوتی تب بھی اس کو بڑا سمجھتے اور کسی نعمت کی برائی نہ فرماتے۔

جب کوئی شخص کسی حق بات کے پورا ہونے میں رکاوٹ بنتا تو اس وقت کوئی بھی آپ ﷺ کے غصے کو برداشت نہ کر سکتا تھا۔ غصہ اس وقت ٹھنڈا ہوتا جب وہ حق بات پوری ہوجاتی۔ اپنی ذات کے لئے کبھی غصہ نہ فرماتے اور نہ ہی انتقام لیتے۔

 

گفتگو کے وقت پورے ہاتھ سے اشارہ فرماتے۔ جب کسی بات پر تعجب فرماتے تو ہاتھ پلٹ لیتے۔ بات فرماتے وقت ہاتھوں کو بھی حرکت دیتے تھے۔ جب کسی پر غصہ آتا تو اس سے منہ پھیر لیتے اور بےتوجہی فرماتے۔ خاموش ہوتے تو حیا کی وجہ سے نظریں جھکا لیتے۔ آپ ﷺ ہنسی کے وقت زیادہ تر تبسم فرماتے اور تبسم کے وقت جب آپ ﷺ کے دندان مبارک سفید چمکدار ظاہر ہوتے تو گویا ایسا معلوم ہوتا جیسے بارش کے اولے ہوں۔

حضرت ام معبد رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا نے فرمایا: آپ ﷺ دور سے سب سے زیادہ جمیل اور نزدیک سے سب سے زیادہ شیریں اور حسین معلوم ہوتے تھے۔ (شمائل ترمذي ، باب ما جاء في خلق رسول الله ﷺ)

حضرت علی رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ نے فرمایا: جو شخص آپ ﷺ کو پہلی مرتبہ دیکھتا تھا مرعوب ہوجاتا تھا اور جو شخص ملتا رہتا تھا وہ آپ ﷺ سے محبت کرتا تھا۔ میں نے آپ ﷺ جیسا صاحب جمال و صاحب کمال نہ آپ ﷺ سے پہلے کسی کو دیکھا اور نہ ہی آپ ﷺ کے بعد کسی کو دیکھا۔ (شمائل ترمذي ، باب ما جاء في خلق رسول الله ﷺ)

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَى سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّ آلِهِ بَقَدْرِ حُسْنِهِ وَ جَمَالِهِ

 

 

جزاک اللہ خیرا