بسم ﷲ الرحمٰن الرحیم

نبی دو جہاںﷺ پر ہونے والے اعتراضات کے جوابات

 

 

Munazza Saleh

TIL Women Urdu – Year 6

 

 

  دو جہانوں کے سردار ہمارے نبی آخر الزماں ﷺ خُلق و خَلق، حسن وسیرت، حسب و نسب، علم و معجزات ہر لحاظ سے ساری مخلوقات سے بہترین اور ہر قسم کے عیوب سے پاک ہیں ۔ تاہم منکرین کی طرف سے ہر نبی کی طرح نبی کریم ﷺ پر بھی  کچھ اعتراضات اور شکوک و شبہات گھڑے گئے، چند کے جوابات مدلّل انداز میں یہ ہیں

 

اعتراض1: پیغمبر اکرم ؐ کا اُمّی یعنی ان پڑھ ہونا

”اُمّی“ ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ نعوذ باللہ نبی ﷺ جاہل تھے، بلکہ یہ ہے کہ نبی ﷺ نے علم کسی مکتب اور مدرسے کے بجائے  براہ راست اللہ رب العزت سے حاصل کیا۔ امی ہونا رسول اللہﷺ کی شان بڑھاتا اور نبوت کا اثبات کرتا ہے کہ جس شخص نے کہیں کسی سے تعلیم حاصل نہ کی، وہ ایسی عمدہ گفتگو کرتا ہے تو یقیناً آنحضرتﷺ کا رب سے واقعتاً رابطہ ہے۔

 

 امی ہونے کا مقصد

 ”وَمَا كُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِهٖ مِنْ كِتٰبٍ وَّلَا تَخُــطُّهٗ بِيَمِيْنِكَ اِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُوْنَ» [ 29۔ العنکبوت: 48 ] ‏‏‏‏ یعنی ” تو اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس سے پہلے نہ تو پڑھ سکتا نہ لکھ سکتا تھا اگر ایسا ہوتا تو شاید ان باطل پرستوں کے شبہ کی گنجائش ہو جاتی ““

 

 اگر پیغمبرﷺ نے کسی استاد سے تعلیم حاصل کی ہوتی تو یقینی طور پر لوگ اعتراض  کرتے کہ یہ قرآن اللہ کی طرف سے نہیں بلکہ نبی ﷺ نے اپنی طرف سے گھڑ لیا ہے

 

اعتراض 2: نبی ﷺ نے نعوذ باللہ متعدد نکاح نفسانی خواہش کے غلبے کی وجہ سے کئے

جواب:

اگر نفسانی خواہش کا غلبہ ہوتا تو 25 سال کےعالم شباب میں 40 سال کی بیوہ سے شادی نہ کرتے اور 50 سال کی عمر تک صرف ایک بیوی پر قناعت نہ کرتے۔

 

 تعدد نکاح کے مقاصد

  1. بیوہ سے نکاح کی ترغیب کے لئے حضرت ام سلمہ اور زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہما سے شادی کی ۔
  2. شادی کے ذریعے مختلف قبائل کو قریب لانا اور اسلام کو فروغ دینا تھا چنانچہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کی وجہ سے نجد کے علاقہ میں اسلام پھیلا، قبیلہ مصطلق کے سردار کی بیٹی حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کی برکت سے قبیلہ کے سو گھرانے آزاد ہوکر مسلمان ہوئے ۔اسلام کے شدید مخالف سردار ابو سفیان کی بیٹی ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کے بعد دشمنی میں کمی آئی، خیبر کے یہودی سردار کی بیٹی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے نکاح اور مسیحی شاہی خاندان کی حضرت ماریہ رضی اللہ عنہا کا بازنطینی بادشاہ شاہ مقوقس کی طرف سے بطور ہدیہ آپ ﷺکی خدمت اقدس میں بھیجا جانا بھی اسی سلسلے کی کڑی تھا
  3. حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے نکاح کا  مقصد متبنی کی رسم توڑنا تھا ۔
  1. پھر ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کے ذریعے سے خانگی معاملات، ازدواجی مسائل اور وہ علم جس تک صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کی پہنچ نہ ہوسکتی تھی، امت تک پہنچایا گیا نیز ازواجِ مطہرات کے گھر صحابیات کی دینی درسگاہیں تھیں

 

اعتراض3: نبی ﷺ نے کم عمر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا

سب سے پہلی بات یہ کہ اگر یہ اعتراض کی بات ہوتی تو اس زمانے کے سر جوڑ کر اعتراضات ڈھونڈنے والے مشرکین نے کیوں نہ یہ طعنہ دیا معلوم ہوا کہ اس زمانے میں کم عمر سے شادی کرنا عام رواج تھا۔

 

جلد نکاح کی اسلامی تاریخ سے مثالیں

(1) ابوعاصم النبیل کہتے ہیں کہ میری والدہ ایک سو دس (110) ہجری میں پیدا ہوئیں اور میں ایک سو بائیس ( 122) ہجری میں پیدا ہوا۔ (سیر اعلاالنبلاء جلد7رقم1627) یعنی بارہ سال کی عمر میں ان کا بیٹا پیدا ہوا تو ظاہر ہے کہ ان کی والدہ کی شادی دس سے گیارہ سال کی عمر میں ہوئی ہوگی۔

(2) عبداللہ بن عمرو اپنے باپ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے صرف گیارہ سال چھوٹے تھے ۔

( تذکرة الحفاظ جلد1ص93)

 

 بلوغت کا جلد ہونا

عرب کی گرم آب و ہوا  اور خوراک کی وجہ سے بلوغت جلدی ہو جانا بعید از عقل نہیں۔ سیدہ عائشہؓ کی نسبت قابل وثوق روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی نشوونما اورجسمانی قویٰ بہت بہتر تھے۔

کم عمری کی وجہ سے دین کی خدمت

 غیر معمولی جسمانی نشوونما کے ساتھ ساتھ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بہت ذہین، زیرک اور فقیہہ تھیں، حضور ﷺ نے نسوانی احکام و مسائل کے متعلق آپ کو خاص طور پر تعلیم دی۔ آپ کثیر الرواۃ صحابہ میں شمار ہوتی ہیں، آپ کے کثیر شاگرد تھے اور حضور اقدس ﷺ کی وفات کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے 48 سال تک زندہ رہ کر دین کی ایسی خدمت کی جو کوئی دوسری زوجہ مطہرہ رضی اللہ عنھن نہ کرسکیں۔

 

جزاک اللہ خیرا