بسم ﷲ الرحمٰن الرحیم

محرم الحرام: حضرت عمر بن خطّاب ؓ کی شہادت

 

 

Shumaila Rais

TIL Women Urdu – Year 4

 

 

علامہ طبری، ابن اثیر اور بعض مورخین نے لکھا ہے کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالی عنہ کا ایک مجوسی غلام جس کا نام فیروز تھا اور ابولولو اس کی کنیت تھی اس نے ایک دن حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کی عدالت میں اپنے آقا مغیرہ بن شعبہ کی شکایت کی کہ میرے آقا نے مجھ پر بہت زیادہ محصول لگا رکھا ہے ، آپ کچھ کم کرا دیجیے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تعداد پوچھی ، اس نے کہا دو درہم روزانہ وصول کرتے ہیں امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضى الله تعالى عنہ نے اس سے پوچھا کہ تم کیا کرتے ہو؟ اس نے بتایا کہ میں لوہے اور لکڑی پر نقش نگاری کا کام کرتا ہوں یہ سن کر امیر المومنین حضرت عمر نے فرمایا پھر تو دو درہم زیادہ نہیں ہیں تم اچھے بھلے کاریگر ہو ، جاؤ اپنا کام کرو ، ابو لولو فیروز امیر المؤمنین کی طرف سے یہ جواب سن کر سخت رنجیدہ ہوا ، اس کے دل میں اپنے آقا کے ساتھ امیر المومنین کے لیے بھی عداوت پیدا ہو گئی اس نے دل میں انتقام کی ٹھان لی ، چنانچہ اس نے زہر آلود خنجر تیار کیا اور موقع کی تلاش میں سرگرداں رہنے لگا ، اس نے اگلے دن کی نماز فجر میں موقع کو مناسب سمجھا چنانچہ 27 ذو الحجہ 23ھ کو حسب معمول حضرت عمر فاروق رضى الله تعالى عنه امامت فرما رہے تھے کہ اس نے آگے بڑھ کر ان پر خنجر کے متواتر چه وار کیے ، حضرت عمر فاروق رضى الله تعالى عنہ رخم کی تاب نہ لا کر نڈھال ہو کر زمین پر گر پڑے باقی نماز حضرت عبد الرحمن بن عوف رضى الله تعالى عنہ نے مکمل کرائی۔

 

 

نماز سے فراغت کے بعد حضرت عمر فاروق رضى الله تعالى عنہ نے اپنے قاتل کے متعلق دریافت کیا کہ وہ کون تھا بتایا گیا کہ وہ ابو لولو فیروز تھا آپ رضی اللہ عنہ نے الله کا شکر ادا کیا کہ مجھ پر قاتلانہ حملہ کرنے والا کوئی مسلمان نہیں ہے ، گویا امیر المومنین کی شہادت کی خواہش پوری ہونے کا وقت آ گیا۔ فاروق اعظم کو یقین ہو گیا کہ میری خواہش ضرور پوری ہوگی ظالم ابو لولو فیروز نے آس پاس کے لوگوں کو بھی زخمی کر کے بھاگنے کی کوشش کی لیکن پکڑ لیا گیا اور جب اسے نجات کی کوئی راہ نہ ملی تو صورتحال کو دیکھتے ہوئے خود کشی کر لی .

 

 

لوگوں کی اصرار سے چھ شخص کو آپ نے منصب خلافت کے لیے نام زد کیا کہ ان میں سے جس کی نسبت کثرت رائے ہو وہ اس منصب کے لیے منتخب کر لیا جائے ان لوگوں کے نام یہ ہیں علی ، عثمان ، زبیر ، طلحہ، سعد بن أبي وقاص، عبد الرحمن بن عوف رضی الله علیھم اجمعین اس مرحلے سے فارغ ہونے کے بعد اپنے فرزند عبد الله رضی الله عنہ کو بھیج کر حضرت عائشہ رضى الله تعالى عليہ سے رسول الله صلى الله علیہ وسلم کے پہلو میں دفن ہونے کی اجازت طلب کی، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ اس جگہ کو میں اپنے لیے محفوظ رکھنا چاہتی تھی لیکن آج میں عمر رضی اللہ عنہ کو اپنے آپ پر ترجیح دیتی ہوں جب یہ بات حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سنی تو بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ یہی سب سے بڑی آرزو تھی۔

 

 

پھر اپنے صاحبزادے عبداللہ کو وصیت کی کہ مجھ پر جس قدر قرض ہوا اگر وہ میرے متروکہ مال سے ادا ہو سکے تو بہتر ہے ورنہ خاندان عدی سے درخواست کرنا اور اگر ان سے نہ ہو سکے تو قریش سے ، لیکن قریش کے سوا اور کسی کو تکلیف نہ دینا غرض اسلام کا سب سے بڑا پیرو ہر قسم کی ضروری وصیتوں کے بعد تین دن بیمار ره کر محرم کی پہلی تاریخ ہفتہ کے دن 24 بجری کو اپنے دونوں محترم رفقاء کی طرح بعمر 63 سال واصل بحق ہوئے اور اپنے محبوب آقا کے پہلو میں ہمیشہ کے لیے میٹھی نیند سو رہے ہیں

 

 

 

تقاضہ ہے پھر دنیا میں شان حق بویدا بو

عرب کے ریگزاروں سے کوئی فاروق پیدا ہو

بڑا چرچا ہے پھر سے جہاں میں کفرو باطل کا

کوئی فاروق پھر الهی تو حق کا بول بالا ہو

جَزَاكَ ٱللَّٰهُ