بسم ﷲ الرحمٰن الرحیم

حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا نظریہ اور واقعہ کربلا سے امت کو سبق

 

 

Sumbal Chughtai

TIL Women Urdu – Year 6

 

 

سورج روز مشرق سے طلوع ہو کر مغرب میں ڈوب جاتا ہے- چاند روز اپنے مرکز سے نمودار ہو کر رات کی تاریکی کو چیرتا ہوا اپنا سفر ختم کر کے اپنا دکھ ستاروں سے سرگوشی میں بتا جاتا ہے- ستارے روز فلک پر جھلملاتے ہیں اور امت کے سب سے کربناک اور تاریک لمحہ پر لب کشائی کرتے ہیں، جب امت  میں اقتدار کا نشہ مدہوشی کے جام پلاتے ہوئے نواسہ رسول صل اللہ علیہ وسلم کے خون سے ہاتھ رنگوا لیتا ہے-

 

 

 نظریہ سیدنا حسین:

حضرت حسین رضی اللہ عنہ سیاسی بصیرت کے حامل دور اندیشی رکھنے والے جہاں دیدہ اور معاملہ فہم انسان تھے-

آپ رضی اللہ عنہ ناصرف یزید کی ذاتی کمزوریوں اور فسق فجور کی شہرت کیوجہ سے انکار کر رہے تھے بلکہ  نظام سیاست میں شورایت سے موروثیت کی طرف منتقلی کے خطرناک نتائج کو ایک عظیم مدبر کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے- جس کے بد اثرات چند نسلوں کے بعد منفی انداز میں نظر آ رہے تھے- اسلیے شرعا رخصت کے باوجود عزیمت کی راہ پر چلتے ہوئے ایک مضبوط موقف اختیار کیا اور اپنی جان بھی قربان کر دی-

 

 

سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا موقف یہ تھا:

1- اسلام میں خلیفہ کا انتخاب امت کے اہل راے افراد کرتے ہیں اور یزید کا انتخاب اس طریقے سے نہیں ہوا-

2- یزید خلافت کا اہل نہیں وہ دولت کی آغوش میں پرورش پانے والا آزاد خیال عیاش سیر شکار کا دلدادہ شہزادہ تھا-

3- یزید کا اقدام خلافت کو قیصریت میں بدلنے کا تھا-

4- اگر آج اس کے خلاف آواز بلند نہ کی تو اسلام کے شواری نظام سے ہٹ کر موروثیت کے نظام اقتدار کی بنیاد قائم ہو جاے گی-

 

 

 

 امت کے لیے سبق:

اللہ تعالیٰ کی ذات حکیم ہے اور حکیم کا کوئی بھی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا-

واقعہ کربلا پیش آیا، حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور سادات نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے اگر پورے واقعہ پر گہری نظر ڈالی جاے تو امت کے لیے چند سبق آموز نتائج سامنے اتے ہیں-

 

 

نظریاتی نتائج:

حرمین کا تقدس:

حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے حرمین کے تقدس کا اپنی جان سے بھی زیادہ خیال رکھا انھیں معلوم تھا کہ یزید ان سے زبردستی بیعت کروانے کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہے لہٰذا حرمین کی بے حرمتی سے بچنے کے لیے آپ وہاں سے نکل آئے، اس بات کا ثبوت آپ کا وہ فرمان ہے جو آپ نے حضرت عبداللہ بن عباس سے اس وقت فرمایا جب وہ آپ کو مکہ سے نکلنے سے منع کر رہے تھے-

آپ نے فرمایا مجھے کہیں اور قتل ہو جانا،  اللہ اور اسکے رسول صل اللہ علیہ وسلم کے مقدس شہروں میں خون ریزی برپا ہو جانے سے زیادہ عزیز ہے- لهذا امت کو حرمین کا تقدس اپنی جان سے زیادہ عزیز ہونا چاہیے-

سیاسی نتائج:

آپ نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے امت کو ایک سیاسی شعور دیا-

 

1-مسلمان ہر ظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنے کی طاقت رکھتا ہے- حق پر چلنا اور حق بات کہنا مسلمان کا اولین فریضہ ہے – حق کا دفاع کرنا مسلمان کی اولین ذمہ داری ہے اس فریضہ کی تکمیل کے لئے مسلمان کسی ظالم جابر حکمران سے خوف زدہ نہیں ہوتا, حق کے لیے اپنا سر تو کٹوا سکتا ہے لیکن حق بات سے دستبردار نہیں ہوتا-

 

2- وقت کے یزید کو مسلمان للکارتاہے- اگر کوئی بڑی سی بڑی طاقت بھی ہو اور وہ یزید کی طرح باطل راہ پر ہو تو اس کا مقابلہ کرنا مسلمان کا فرض ہے-

3-حاکم وقت کی غلط پالیسیوں جابرانہ فیصلوں اور ظالمانہ اقدامات کی مخالفت کا حوصلہ رکھتا ہے-

4-اگر سیاسی نظام میں خلاف شریعت معاملات کا اندیشہ ہو تو اس کے سدباب کی بھرپور کوشش کرنا مسلمانوں کی ذمہ داری ہے-

5- اہل سادات کا رتبہ امت کی نظر میں مزید بڑھ گیا- اہل سادات کس قدر عظیم الشان کردار کے مالک تھے- پرعزم, بلند حوصلہ, ثابت قدم حق پر ڈٹ جانے والے تھے-

6- رجوع الی اللہ اور صبر استقامت کا درس، مصائب اور مشکلات کے وقت رجوع الی اللہ کا درس ملتاہے- مصائب و مشکلات جس قدر بھی بڑی ہو مگر واقعہ کربلا ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ ہر حالات میں صرف اور صرف اللہ کی طرف ہی رجوع کیا جائے مشکلات اور مصائب میں صبر کا دامن تھاما جاے۔

7- ایک اہم سبق یہ کہ اللہ کے علاوہ کوئی مشکل کشا حاجت روا اور عالم الغیب نہیں- جیسا کہ بعض لوگوں کا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ حاجت روا مشکل کشا اور عالم الغیب ہیں، اگر ایسا ہوتا تو آپ رضی اللہ عنہ کو آنے والے حالات کا پہلے سے علم ہو جاتا-

 

 

جزاکم اللہ خیرا کثیرا