بسم ﷲ الرحمٰن الرحیم

واقعہ کربلا

 

 

Iltija Firdaus

TIL Women Urdu – Year 5

 

کربلا اسلامی تاریخ کا ایک اہم ترین واقعہ ہے۔

جنگ حضرت محمد ﷺ کی وفات کے بعد ہوئی تھی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ جب خلیفہ بنے تو کچھ لوگوں کو نہ بھایا ، اتنی لڑائیاں ہوئیں کہ آخر کار حضرت علی شہید ہوگئے۔ پھر ان کے فرزند حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہ چھ ماہ خلیفہ رہے وہ بھی ان کے بعد شہید ہوگئے ۔

 

 

تاریخ کربلا:

کربلا کی جنگ 10 محرم 61ھ )بمطابق 9 یا 10 اکتوبر، 680ء کو موجودہ عراق میں کربلا کے مقام پر پیش آیا۔ یہ جنگ نواسۂ رسول حضرت حضرت حسین بن علی، ان کے حامیوں، اور رشتہ داروں کے ایک چھوٹے سے گروہ، حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ 72 ساتھی، کچھ غلام، 22 اہل بیعت کے جوان اور خاندان نبوی ﷺ کی کچھ خواتین و بچے شامل تھے۔ اور اموی ظالم حکمران یزید اول کی ایک بڑی فوج کے مابین ہوئی۔ جس کو حضرت حسین بن علی نے تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔ جس میں اموی خلیفہ یزید بن معاویہ کی فوج نے رحمۃ للعالمین ﷺ کے نواسے حسین بن علی اور انکے رفقاء کو جنگ میں شہید کیا۔ عمر بن سعد کی فوج نے کربلا کی صحرا میں مقتولین کی لاشیں چھوڑ دیں ۔ بنی اسد کے لوگوں نے تین دفعہ لاشوں کو دفن کیا ۔

 

دونوں لشکروں کا آمنے سامنے مقابلہ:

حرم کی دسویں دن حسین بن علی اور عمر سعد کی لشکروں کا آمنے سامنے مقابلہ تھا۔ ابو مخنف کے مطابق امام حسین کی فوج کی تعداد 32 گھڑسوار اور 40 پیادہ تھا اور امام محمد باقر کے مطابق پینتالیس گھڑسوار اور ایک سو پیادہ تھے۔ اس کے سامنے عمر بن سعد کی فوج تھی جس میں 30،000 کے قریب جوان تھے۔

حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا موقف یہ تھا کہ میں یزید جیسے آدمی پر بیعت کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں۔

نتیجہ یہ نکلا کہ آپ رضی اللہ عنہ کے پاس کوفہ سے وفود آئے، کوفہ کا گورنر ابن زیاد، یزید کا آدمی تھا، بڑا ظالم تھا۔ اہل کوفہ کے وفود آئے کہ آپ یہاں پر آجائیں یہاں سب لوگ آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے لئے تیار ہیں۔

حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا خیال یہ تھا کہ اگر یہ سب تیار ہیں تو یزید کی حکومت بغیر لڑائی کے، بغیر بڑے قتال کے مسلمانوں کے خون خرابے کے بغیر ختم ہو سکتی ہے۔

یہ جو معلومات آپ کو ملی تھیں وہ غلط تھیں اگر یہ معلومات صحیح ہوتی تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کبھی کربلا کی طرف رخ نہ کرتے کیونکہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا موقف  یہ تھا کہ مسلمانوں کی تلواریں آپس میں نہ چلیں۔

 

 

مسلم بن عقیل کی کوفہ کی طرف روانگی:

حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے پاس  جب پچاس سے زیادہ خطوط اہل کوفہ کی طرف سے موصول ہوئے کہ آپ کوفہ آئیں، لگاتار یہ اصرار ہوتا رہا تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے رشتہ داروں، اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل کو بھیجا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مسلم بن عقیل کو کوفہ کی حکومت نے گرفتار کر کے قتل کر دیا، یہ ایسا ظلم تھا جس کی جانکاری کے لئے کسی کو سفیر بنا کر بھیجا جائے، کسی کو حال احوال دیکھنے کو بھیجا جائے اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی نیت ہرگز بغاوت کی نہیں تھی مگر کوفہ کے گورنر اور یزید کو یہ خیال تھا کہ خلافت کے اصل اہل سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہ ہی ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں یہ خلیفہ بننا چاہتے ہیں۔ یہ خوف یزید کے دل میں گھر کر لیا تھا ۔

مسلم بن عقیل کی شہادت:

جب مسلم بن عقیل کو شہید کیا گیا اس وقت حضرت حسین کوفہ کی طرف روانہ ہوچکے تھے ۔ جب وہ کوفہ کی طرف جارہے تھے تو بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ کو وہاں جانے سے۔ منع بھی کیا، جن میں حضرت ابن عمر و ابن عباس رضی الله عنہما تھے کہ آپ یہ کام نہ کریں، بعض نے کہا مجھے آپ کی شہادت کا یقین ہے۔ کیوں کہ جس حالات میں آپ جا رہے ہیں حکومت کوفہ سمجھے گی کہ بغاوت کرنے آرہے ہیں لہذا وہ آپ کو اس case پر قتل کر دے گی کہ آپ کی نیت حکومت کے خلاف بغاوت کرنا ہے۔

 

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: صحیح حدیث کا مفہوم ہے :

” جب مسلمان کسی ایک امیر پر جمع ہوجائیں تو اس کے خلاف جو بھی اٹھے اس کو قتل کر دو خواہ اسکے خلاف اٹھنے والا کتنا ہی نیک کیوں نہ ہو”

 

حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا موقف یہ تھا کہ میں نے ابھی تک یزید کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے لہذا میں اس وعید میں داخل نہیں ہوں۔

ہوا یہ کہ حضرت حسین جب کربلا کے مقام پر پہنچے تو وہاں آپ کو مسلم بن عقیل کی شہادت کا بھی علم ہوا اور یہ بھی اندازہ ہوگیا کہ حالات ایسے نہیں ہیں جیسے میں سمجھ رہا تھا

ابن زیاد بدبخت نے حضرت حسین کے بارے میں کہا کہ بغیر کسی شرط کے حسین کو گرفتار کرکے لاؤ اور میرے ہاتھ پر بیعت کراؤ۔ یہ نواسۂ رسول ﷺ کی توہین تھی کہ حضور ﷺ کے نواسے کے ساتھ ایک عام انسان جیسا برتاؤ کیا جا رہا ہے، انہیں بیعت پر مجبور کرایا جا رہا ہے۔

 

 

کربلا میں حضرت حسین کا موقف:

حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا کربلا کے میدان میں موقف یہ تھا کہ میں اگر بیعت ہوں گا تو یزید بن معاویہ کے ہاتھ ہوں گا جو مسلمانوں کا خلیفہ ہے، ابن زیاد کے ہاتھ پر بیعت نہیں ہوں گا۔

یہ بھی تاریخ کا ایک اہم پہلو ہے کہ حضرت حسین نے کوفہ جانے کا ارادہ ترک کر کے کربلا سے ڈائریکٹ شام جانے کا ارادہ کر لیا۔

 

 

ابن زیاد  کا حضرت حسین کی گرفتاری کرنا:

بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ حضرت حسین جب واپس ہو رہے تھے تو صرف مقام کربلا سے گزر رہے تھے، واپسی کا راستہ شام ہی کا ہے۔ آپ یزید سے ملاقات و مذاکرات کے لیے تیار ہوچکے تھے۔ آپ کا مقصد یزید کے خلاف تلوار اٹھانا نہیں تھا۔ مگر ابن زیاد نے حضرت حسین اور آپ کے ہمراہ تمام اہل بیعت پر ظلم کیا کہ بدبخت نے انہیں شام جانے کا راستہ نہیں دیا۔

اس نے آپ رضی اللہ عنہ کا اپنے  ہاتھ پر بیعت نہ ہونے کو توہین محسوس کیا، لشکر بھیجا جس میں چاروں طرف سے حضرت حسین کو گھیرا گیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا :

“میں عزت کی موت کو ذلت کی زندگی پر ترجیح دیتا ہوں”

 

 

حضرت حسین کی شہادت:

الله تعالٰی حضرت حسین کی شہادت کوفہ کے گورنر کے ذریعہ کرانا چاہتے تھے تاکہ اس کی بدبختی ساری دنیا کے سامنے ظاہر ہو جائے۔ اگر حضرت حسین خود ہی تلوار چلاتے تو آپ پر یہ الزام لگایا جاسکتا تھا کہ معاذاللہ آپ باغیوں میں ہیں۔ اللہ تعالی نے اپنے محبوب ﷺ کے نواسے کو اس الزام سے محفوظ رکھا اور آپ نے لڑائی کا ارادہ ترک دیا۔

حضرت حسین نے کربلا کے میدان میں اقدامی لڑائی نہیں بلکہ دفاعی لڑائی لڑی تھی ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آپ کو شہید کر دیا گیا اور  سواۓ امام زین العابدین  کے جتنے اہل بیعت مرد تھے ان سب کو بھی شہید کردیا۔

یہ اسلامی تاریخ کا ایک بدنما و بدترین واقعہ ہے۔

جب یہ سانحہ عظیم ہو چکا اس وقت باقی جو بھی اہل بیعت بچ گئے تھے وہ یزید کے پاس لے جائے گئے ۔ روایات میں آتا ہے کہ یزید نے انکا اکرام کیا اور انہیں باعزت تحفہ تحائف دے کر واپس کیا۔

اس واقعے کے بعد بنو امیہ کی حکومت کی وہ value صحابہ کرام کے دل میں نہ رہی جو پہلے کسی حد تک برقرار تھی۔ لوگوں کے دلوں میں حکومت کے خلاف بغض و عناد پیدا ہوگیا بالآخر بغاوتیں شروع ہوگئیں، لیکن جمہور صحابہ کا پھر بھی یہی موقف تھا کہ حکومت کے خلاف بغاوت جائز نہیں۔

اس کے بعد بنو امیہ میں اسی طرح کے ظالم حکمران آتے رہے اور انہیں کی اولادوں میں اللہ تعالی نے عمر ثانی حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ کو پیدا کیا۔

جیسے ہی عمر بن عبد العزیز خلیفہ بنے آپ نے بنو امیہ کی تمام جاہلانہ چیزوں کو ختم کرکے دوبارہ سے خلیفۂ ثانی، امیر المؤمنین حضرت عمر بن خطاب جیسے عدل وانصاف کا نظام قائم کردیا، حکومتی ملکیت جو لوگوں نے ذاتی خزانہ سمجھنا شروع کردیا تھا ان سب کو عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ نے ختم کردیا۔

 

 

 

 

جَزَاكَ ٱللَّٰهُ