بسم ﷲ الرحمٰن الرحیم

اہل فلسطین اور مسجد اقصیٰ

 

 

Fatema Biladiwala

TIL Women Urdu – Year 6

 

مسجد اقصیٰ کی فضیلت واہمیت:

مسجد اقصی تینوں آسمانی مذاہب ، ، یہودیت ، عیسائیت اور اسلام کے ماننے والوں کے ہاں بہت زیادہ اہمیت و عظمت رکھتی ہے۔ اسلام میں اسے حرم کا درجہ حاصل ہے، اس کا شمار مقدس مقامات میں ہوتا ہے، آیات قرآنیہ، احادیث نبویہ اور تاریخ کی معتبر روایات کی روشنی میں اس کے فضائل، مسائل، تاریخی خدو خال اور جغرافیہ وغیرہ کے اعتبار سے جو معلومات حاصل ہوتی ہیں ان کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

 

محل وقوع:

مسجد اقصی ملک فلسطین میں واقع ہے اور فلسطین کے جس شہر میں ہے وہ دو حصوں میں منقسم ہے، ایک جدید شہر ہے اور ایک قدیم ۔ قدیم شہر کو یروشلم بھی کہتے ہیں اور القدس بھی ، مسجد اقصی اور دیگر مقدس مقامات مثلا انبیاء کی یادگاریں ، حجرے اور گذشتہ قوموں کے آثار اسی قدیم شہر میں  موجود ہیں ، اس قدیم شہر کا چاروں طرف سے سولہ سو میٹر لمبی پتھر کی دیوار کے ساتھ احاطہ کیا گیا ہے جس میں نو بڑے بڑے دروازے ہیں۔

 

 

مسجد اقصی کی فضیلت:

مسجد اقصی روئے زمین پر موجود مقدس مقامات میں سے ایک اہم ترین مقام ہے، جہاں ہزاروں سال بعد بھی نماز پنج گانہ، جمعہ، عیدین، اعتکاف ، درس و تدریس اور تمام عبادات کا سلسلہ جاری ہے ، ، اس کی روحانی ، وجدانی اور نورانی  فضاؤں میں  آج بھی مسلمان کچھ لمحات گزار اپنے اپنی تسکین قلبی  کا سامان کرتے ہیں۔ مسجد اقصی کی فضیلت کے بہت سے پہلو ہیں جن سے اس کی تقدیس عیاں ہوتی ہے۔

 

مسلمانوں کا قبلۂ اول:

نماز میں جب تک بیت اللہ کی طرف منہ کرنے کا حکم نہیں آیا تھا تب تک مسلمان بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے ، حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ہم نے سولہ یا سترہ مہینے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نمازیں پڑھیں ، پھر کعبۃ اللہ کو ہمارے لیے قبلہ مقرر کر دیا گیا ( صحیح بخاری )

 

 

انبیاء اور اولیاء کا مسکن:

مسجد اقصی کو ہزاروں نبیوں اور اولیاء اللہ کی قدم بوسی کا شرف حاصل ہے، خدا کے نیک بندے  اپنی روحانی تسکین کے لیے یہاں وقت گزارا کرتے تھے، بہت سے انبیاء کو اسی مسجد میں منصب نبوت سے نوازا گیا ، حضرت مریم علیہا السلام کے والد حضرت عمران اسی مسجد کی امامت و خطابت اور و تولیت کے فرائض سر انجام دیتے رہے ، ان کے بعد یہ ذمہ داری حضرت زکریا علیہ السلام نے اٹھائی، حضرت مریم کی پیدائش کے اول روز سے ہی ان کی والدہ حضرت حنہ انھیں مسجد اقصی کے منتظمین کے حوالہ کر آئیں، جہاں حضرت زکریا علیہ السلام نے ان کی پرورش کی جو رشتے میں ان کے خالو لگتے تھے۔ یہیں بیت المقدس کے حجرے میں حضرت زکریا علیہ السلام نے بڑھاپے میں اللہ تعالی سے بیٹے کا سوال کیا ، اللہ تعالی نے انہیں حضرت یحییٰ علیہ السلام کی خوشخبری دی ، تمام انبیاء کرام معراج کی شب یہاں تشریف لائے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی امامت فرمائی ، حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے چچا زاد بھائی حضرت لوط علیہ السلام اور ان کی زوجہ حضرت سارہ علیہا السلام نے عراق کے شہر بابل سے یہیں ہجرت فرمائی ۔ اسی بناء پر مسجد اقصی کو سرزمین انبیاء کہا جاتا ہے۔

 

یہودیوں کا نعرہ کہ فلسطین ان کا وطن ہے؟

یہودیوں کا جو بنیادی نعرہ ہے کہ فلسطین ان کا وطن ہے وہ بھی بے بنیاد ہے کیونکہ معاصر یہودیوں میں سے ۹۰ فیصد سے زائد یہودیوں کا تاریخی اعتبار سے فلسطین کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اور معاصر یہودیوں کا تعلق ( الخزر اور اشکنار ) قبائل سے ہے جو کہ تا تاری یعنی قدیم ترک قبائل ہیں اور اگر ان کو اپنے وطن واپس لوٹنے کا کوئی حق حاصل ہے بھی تو وہ روس کے جنوبی علاقوں میں ہے نا کہ فلسطین میں ۔ اسی طرح سابقہ ادوار میں بھی یہودیوں نے کئی مرتبہ بالقصد ارض مقدس فلسطین میں آنے اور بسنے سے انکار کر دیا تھا جیسے حضرت موسی کے ساتھ فلسطین کی جانب جانے سے ان کی اکثریت نے انکار کر دیا اور بعد کے زمانہ میں جب ایرانی بادشاہ ( قورش ثانی) نے انھیں دوبارہ فلسطین میں بسانے کی پیشکش کی تو ان کی اکثریت نے بابل (عراق) سے واپس جانے سے انکار کر دیا تھا اور یہ جو موجودہ فلسطینی ہیں یہ ان کنعانیوں کی نسل سے ہیں جن کی وجہ سے اس علاقے کا قدیمی نام ارض کنعان پڑا تھا۔

 

مسئله فلسطین اور ملت اسلامیہ کی ذمہ داری:

ان دنوں ارض مقدس فلسطین میں جو حالات رونما ہو رہے ہیں ، ان سے ہر شخص بخوبی واقف ہے ، ہر دن اسرائیلی جارحیت کی ایک نئی داستان رقم ہو رہی ہے ، فلسطین کا مسئلہ ملت کا ایک ایسا المیہ بنا ہوا ہے جہاں سے شب و روز انسانیت کی رسوائی کی کہانی سنائی دیتی ہے ، ارض فلسطین مسلمانوں کے خون سے لالہ زار نظر آرہی ہے اور ظلم و ستم کے نت   نئے تجربات سے گذر رہی ہے ، معصوم بچوں اور نہتے جوانوں پر انتہائی بے دردی کے ساتھ گولیاں برسائی جارہی ہیں، ظلم و بربریت کا ریکارڈ توڑا جا رہا ہے،

اخوت اسلامی کا تقاضہ:

سوال یہ ہے کہ فلسطین میں پیش آرہے ان حالات کے سلسلہ میں ملت اسلامیہ کے ایک فرد ہونے کی حیثیت سے ایک مسلمان پر کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے؟ کیا وہ اس المناک صورت حال کے سلسلہ میں یہی سوچ رکھے گا کہ دنیا کے دیگر خطوں کی طرح یہاں بھی کچھ خونریزیاں پیش آرہی ہیں؟ ظاہر ہے کہ اس طرح کی سوچ اخوت اسلامی کے بالکل منافی ہے۔۔ فلسطین کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جس کا مسلمانانِ عالم سے کوئی تعلق نہ ہو بلکہ فلسطین سے متعلق مسلمانوں پر عظیم ذمہ داری عائد ہوتی ہے ، لیکن ملت کی موجودہ صورت حال یہ ہے کہ اس کا ایک بڑا طبقہ فلسطین کے سلسلہ میں عائد ہونے والی ذمہ داریوں سے نابلد ہے، وہ یہ سجھتا ہے کہ امت مسلمہ کے ایک فرد ہونے کی حیثیت سے مسئلہ فلسطین کا اس سے کوئی تعلق نہیں ، مسئلہ فلسطین کے سلسلہ میں ملتِ اسلامیہ کے افراد کو باشعور بنانے اور ان پر عائد ہونے والی ذمہ داریوں سے آگاہ کرنے کے لیے مسلمانانِ عالم کو چند باتوں پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔

 

 

امت مسلمہ جسد واحد:

پہلی بات یہ ہے کہ ساری دنیا میں آباد امت مسلمہ ایک جسم کی طرح ہے ، قرآنی تعبیر کے مطابق وہ ” بنیان مرصوص ، سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہے ، رسول اکرم ﷺ نے ملت کی اس حیثیت کو یوں بیان فرمایا : آپسی محبت و رحمت اور ہمدردی و خیر خواہی میں سارے مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں ، جس کے کسی ایک عضو کو تکلیف پہنچتی ہے تو سارا  جسم متاثر ہو جاتا ہے۔ مشکوۃ شریف ( گویا حقیقی مسلمان وہ ہے جو سارے عالم کے مسلمانوں کے بارے میں فکرمند رہتا ہے اور دنیا کے مختلف گوشوں میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کی جانے والی سازشوں پر آنسو بہاتا ہے ، عالم اسلام کی زبوں حالی اسے بے چین کیے دیتی ہے ، موجودہ حالات میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا یہ ملی شعور کمزور پڑ چکا ہے ، ملت کے بہت سے افراد ایسے ہیں جنہیں کسی بھی درجہ اس کا شعور نہیں کہ عالم اسلام کن حالات سے دو چار ہے؟ دنیا کے مختلف خطوں میں کس بے دردی کے ساتھ خون مسلم بہایا جارہا ہے؟

 

 

غیر اسلامی سوچ:

مسلمانوں کا ایک طبقہ ایسا ہے جو حالات کا صحیح ادراک تو رکھتا ہے ، مگر ان باتوں کو اس لیے قابلِ اعتناء نہیں سمجھتا کہ ان سے اسے کوئی مطلب نہیں اور بعض حضرات تو یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ یہ ان مسلمانوں کی اعمال کی سزا ہے ، وہ خود بھگتیں ، ہمیں اس سے سروکار نہیں ، ظاہر ہے کہ اس طرح کی سوچ سراسر غیر اسلامی اور اخوت اسلامی کے بالکل منافی ہے ، بسا اوقات بہت سے دینی مزاج کے حامل افراد بھی غلط فہمی میں اس کو تقویٰ کا معیار سمجھنے لگتے ہیں ، موجودہ حالات میں اس غلط طرز فکر کی اصلاح کی ضرورت ہے ، ملت اسلامیہ کی حقیقی روح اخوت کا وہ تصور ہے جس سے دیگر قو میں عاری ہیں ، مسئلہ فلسطین کوئی ایسا مسئلہ نہیں جس سے مسلمانان عالم بے خبر رہیں ، اسلام کے تصویر اخوت سے دوری کے نتیجہ میں آج مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد فلسطین اور قضیہ فلسطین سے بالکل نابلد ہے۔

 

 

فلسطین ساری امت کا مسئلہ:

ملت اسلامیہ کو یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ مسئلہ فلسطین قومی یا وطنی مسئلہ نہیں ہے؛ بلکہ یہ ساری امت کا مسئلہ ہے ، یہ اسلام کے قبلہ اول اور رسول اکرم ﷺ کے مقام معراج کا مسئلہ ہے ، فلسطین سے مسلمانوں کا تعلق اتنا ہی نہیں ہے کہ وہ مسلم علاقہ ہے اور اس پر دشمن قابض ہے ، بلکہ مذہبی لحاظ سے وہ امت مسلمہ کا مقدس مقام ہے، جس سے اسلامی تاریخ وابستہ ہے ، فلسطین کے بارے میں عام مسلمانوں کو یہ مغالطہ ہے کہ یہ عربوں کا معاملہ ہے ، اس کا اسلام اور مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں ، یہ دراصل مغربی میڈیا کی منصوبہ بند سازشوں کا نتیجہ ہے ، جو ہمیشہ فلسطین کے قضیہ کو عربوں کے قضیے کی شکل میں پیش کرتا رہا ہے، گذشتہ پچاس سال کے دوران بتدریج فلسطین کے مسئلہ کو قومی شکل دینے کی کوشش کی جاتی رہی، یہودی ذرائع ابلاغ کی اس گہری سازش کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان عالم کو مسئلہ فلسطین سے الگ تھلگ رکھا جائے اور فلسطین کی اسلامی شناخت ختم کر دی جائے ، ایسے میں ملت اسلامیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ مسئلہ فلسطین کے سلسلہ میں مغربی ذرائع ابلاغ اور اس کی طرف سے کیے جانے والے پروپیگنڈوں سے چوکنا رہے ، مغربی میڈیا نے بڑی چالاکی سے فلسطینیوں کی حیثیت ختم کرنے کی کوشش کی ہے ، ۱۹۴۶ ۱۹۴۹ء کی درمیانی مدت میں بعض عالمی مجلسوں میں فلسطینیوں کے بجائے فلسطینی باشندے یا فلسطینی عرب کا لفظ استعمال کیا جانے لگا، پھر ۱۹۵۰ء ۔ ۱۸۶۰ء کے عرصہ میں ” غیر اردنی عرب “ یا ”اسرائیلی عرب “ یا ” اردن والے “ کے الفاظ استعمال کیے جانے لگے ، اسی طرح ۱۹۶۷ – ۱۹۸۷ء کے درمیانی عرصہ میں جب تنظیم آزادی فلسطین وجود میں آئی اور اہل فلسطین کے اندر سر فروشانہ جدو جہد کا جذبہ ابھرا تو انھیں دہشت گردوں سے تعبیر کیا جانے لگا ، اس طرح بتدریج فلسطینیوں کی حیثیت ختم کرنے کی سازش کی گئی، مغربی پرو پیگنڈہ سے خود بھی چوکنا رہنے کی ضرورت ہے اور امت کے دیگر افراد کو بھی باخبر کرنے کی ضرورت ہے ، گویا یہ بھی فلسطین کے سلسلہ میں ہمارے تعاون کی ایک شکل ہے۔

 

گذشتہ پچاس سال سے یہودی فلسطین اور بیت المقدس پر قابض ہیں اور مٹھی بھر یہودیوں کے آگے پچاس سے زائد مسلم ممالک بے بس ہیں ، جب کہ اس سے قبل حضرت عمر نے بھی بیت المقدس کو فتح کیا تھا، پھر بعد کے ادوار میں صلاح الدین ایوبی نے بھی فتح کیا تھا ، سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی عظیم جمعیت اور قوت عددی کے باوجود بیت المقدس کیوں فتح نہیں ہو رہا ہے؟ اور عالمی برادری کے درمیان مسلم ممالک اس طرح بے وزن کیوں ہو گئے؟ امت مسلمہ کی کمزوری اور اس کے اسباب کے سلسلہ میں رسول اکرم ﷺ نے بہت پہلے پیشین گوئی فرمائی تھی؛ چنانچہ ایک موقع پر آپ  ﷺ فرمایا تھا : تم پر ایسا زمانہ آئے گا کہ دنیا کی دیگر قو میں تم پر ایسی طرح ٹوٹ پڑیں گی جیسے کھانے والے دستر خوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں، کسی نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! کیا اس وقت ہماری تعداد بہت کم ہوگی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اس وقت تمہاری تعداد بہت زیادہ ہوگی ، لیکن تم سمندر کے جھاگ کی طرح ہو جاؤ گے ، اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہارا رعب نکال دیں گے اور تمہارے دلوں میں وھن پیدا ہو جائے گا، صحابہ نے عرض کیا ” : وھن “ کیا ہوتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا ” : وھن “ دو چیزوں کا نام ہے ، ایک دنیا کی محبت دوسرے موت کا ڈر۔ ابوداؤد ( رسول اکرم ﷺ کی پیشن گوئی کے مطابق آج مسلمانوں کی جمعیت بہت زیادہ ہے ، لیکن دیگر اقوام میں ان کی حیثیت تنکوں کی طرح ہو گئی ہے ، دشمنوں کے دلوں سے ان کا رعب ختم ہو چکا ہے ، فلسطین کے مسئلہ میں مسلم ممالک کی بے بسی سے حدیث رسول ﷺ کی سچائی پوری طرح عیاں ہے ، اخیر میں رسول اکرم نے مرض کی تشخیص یوں فرمائی کہ مسلمانوں کی کمزوروی کے دو اسباب ہیں : ایک دنیا کی محبت دوسرے موت کا خوف ۔ بیت المقدس کی آزادی کا خواب اس وقت تک شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا جب تک امت مسلمہ شراب و شباب اور اتباع نفس سے نکل کر ہر طرح کی قربانیوں کے لیے آمادہ نہ ہو جائے ، دنیا کے چندہ روزہ عیش و آرام کو خیر باد کہہ کر آخرت کی لازوال نعمتوں کی آرزو مند نہ ہو جائے اور خوف خدا ، جذبہ جہاد ، انابت الی اللہ ، عز و استقلال ، ہمت و جفاکشی جیسے اوصاف سے متصف نہ ہو جائے۔

 

مسلم ممالک اور بالخصوص ان عربوں کو جو اسرائیل کے ساتھ امن معاہدوں کے ذریعہ حل نکالنا چاہتے ہیں یہ بات خوب سمجھ لینی چاہیے کہ یہودی اسلام اور مسلمانوں کے ازلی دشمن ہیں، قرآن مجید نے صاف اعلان کیا ہے ” : تم سے یہودی اس وقت تک خوش نہ ہوں گے جب تک تم ان کی ملت کی پیروی نہ کرو۔“( البقرہ )اور ایک دوسری جگہ فرمایا: تم ان یہودیوں کو سب سے زیادہ اہلِ ایمان کا دشمن پاؤ گے۔ (المائدہ )نیز قرآن مجید میں یہودیوں کا خاص وصف عہد شکنی بتایا گیا ہے ، ایسے میں امن مذاکرات اور معاہدوں سے توقع وابستہ رکھنا انتہائی حماقت ہے، مسئلہ فلسطین کا واحد حل یہ ہے کہ امت میں جہاد کی روح پیدا کی جائے اور حقیقی جہاد کا راستہ جہاد بالنفس سے ہو کر گزرتا ہے ، جب تک خواہشات نفس سے جہاد کرنا نہ آئے اس وقت تک دشمنوں کے ساتھ جہاد میں کامیابی ممکن نہیں ، جو لوگ نفس کی غلامی میں رہ کر آزادی فلسطین کے بلند بانگ دعوے کرتے ہیں وہ جہاد کے کھوکھلے نعرے تو بلند کر سکتے ہیں، لیکن اسلامی جہاد قائم نہیں کر سکتے ، اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ بیت المقدس کی آزادی کے پیش خیمہ کے طور پر سارے عالم میں مسلمانوں کے درمیان اصلاحی کام کو تیز کر دیا جائے ، جہاد بالنفس کی جس کو حدیث میں ” جہادا کبر “ کہا گیا ہے ، تلقین کی جائے ، خود احتسابی ، خوف خدا اور رجوع الی اللہ کی ایسی مہم چلائی جائے کہ رعایا سے لے کر حکمراں ہر طبقہ میں انابت الی اللہ پیدا ہو جائے ، دوسری طرف اسباب و تدابیر کی ساری شکلیں اختیار کی جائیں، پھر وہ دن دور نہیں کہ فلسطین آزاد ہو جائے۔

 

 

غزہ پر مظالم اور ہماری ذمہ داریاں:

اگر پہاڑوں کو جگر ہوتا تو بعید نہ تھا کہ وہ بھی شق ہو جاتا، اگر درختوں کو آنکھیں ہوتیں، تو عجب نہ تھا کہ وہ بھی آنسوؤں کا دریا بہا دیتے ، اگر زمین کو زبان ہوتی تو کیا عجب کہ اس کے نالہ و فریاد سے کرہ ارض میں کہرام برپا ہو جاتا اور اگر درندے ان انسان نما درندوں کو دیکھ لیتے تو شاید وہ بھی شرمسار ہو جاتے اور درندگی میں صہیونیوں اور ان کی موافقت کرنے والوں کی بالا دستی کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے ، اس خون آشامی ظلم و بربریت قتل و غارت گری کی وجہ سے جو اس وقت غزہ میں جاری ہے، جس کو سالہا سال سے اسرائیل کے ساتھ ساتھ اس کے نام نہاد، بے حمیت ، کوتاہ ہمت ضمیر فروش اور منافق نام نہاد مسلم حکومتوں نے ایک ایسے قید خانہ میں تبدیل کر رکھا ہے، جو بنیادی ضروریات سے بھی محروم ہے۔

 

سلامتی ہو غزہ کے ان مجاہدین پر، جنھوں نے اپنے لہو سے اسلام کے شجر طوبی کو سینچنے کا عزم کر رکھا ہے ، صد ر ہزار رحمتیں ہوں ان شہداء راہ حق پر ، جنھوں نے اپنے خون کا ایک ایک قطرہ دین حق کی سرخروئی کے لیے نچھاور کر دیا ہے، لاکھوں سلام شوق پہنچے ان معصوم نو نہالوں پر جنھوں نے اسلام کی سر بلندی کے لیے اپنی معصوم جانوں کا نذرانہ پیش کر دیا ہے اور اسی قدر لعنتیں ان صلیبی اور صہیونی ظالموں پر جو دین و اخلاق اور بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں بکھیر کر اپنی خون آشامی کی خوپوری کر رہے ہیں اور ان خوف خدا سے عاری اور ہمت مردانہ سے خالی مسلم حکمرانوں پر جن کے سینوں میں شیطان نے دل کی بجائے پتھر کی سل رکھ دی ہے، جن میں سے بعض علی الاعلان یا خفیہ طور پر اسرائیل کے ہم نوا ہیں اور بدترین قسم کی برادر کشی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ بار الٰہی! اپنے ان مظلوم بندوں پر رحم فرما، جن سے مغرب و مشرق کی عداوت صرف اس لیے ہے کہ وہ تیرے پاک نام سے نسبت رکھتے ہیں اور پروردگارا ! ہلاک و بر باد فرما ، ان شقی و بد بخت حکومتوں کو، جو بے قصور انسانوں کے خون میں ڈوبی ہوئی ہیں ، یا اس میں مددگار ہیں !!

 

سوال یہ ہے کہ جو مسلمان اپنے ان مظلوم اور نہتے بھائیوں کی اخلاقی مدد کرنے کے سوا کچھ اور نہیں کر سکتے ، انھیں کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟ ۔ رسول اللہ صلیم نے ایک اصول بیان فرما دیا ہے کہ جب تم میں سے کوئی شخص کسی برائی کو دیکھے تو اوّل اسے ہاتھ سے روکنے کی کوشش کرے، اگر اس پر قادر نہ ہو تو زبان سے اور یہ بھی ممکن نہ ہو تو دل سے ، یعنی دل سے برا سمجھے، اور دل میں یہ ارادہ رکھے کہ اللہ تعالیٰ جب بھی قدرت دیں گے، وہ اُسے روکنے کی کوشش کرے گا، (ابوداؤد، حدیث نمبر : ۴۳۴) ظلم و جور سے بڑھ کر کوئی منکر اور برائی نہیں ، یہ تو دنیا میں شرک سے بھی بڑھ کر ہے؛ کیوں که دنیوی احکام کی حد تک شرک کو گوارا کیا جا سکتا ہے، لیکن ظلم ایسی بُرائی ہے کہ وہ کسی طور پر قابل قبول نہیں ، کفر و شرک بھی ایسا جرم نہیں کہ جو شخص پہلے سے اس عقیدہ پر ہو، اسے قتل کرنا جائز ہو ، لیکن اگر کوئی شخص کسی کا مال لے لے، کسی کی عزت و آبرو پر حملہ آور ہو، یا کسی کو قتل کر دے تو وہ ضرور لائق سزا ہے، پس ظلم سب سے بڑی برائی ہے اور اپنی طاقت و صلاحیت بھر اس کی مخالفت واجب ہے! سے برائ ہے اور اپنی و بھراس کی سے تھا۔ مخالفت اور ناراضگی کے اظہار کا ایک طریقہ ترک تعلق بھی ہے اور ظالموں کے ساتھ ترک تعلق کی تعلیم خود قرآن مجید نے دی ہے،

 

اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَىٰ أَوْلِيَاءَ ۘ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ (51 المائدة)

ترجمہ: اے ایمان والو ! یہود و نصاری کو دوست نہ بناؤ ، وہ ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں سے جو ان کو دوست رکھے گا ، وہ ان ہی میں سے ہوگا ، بے شک اللہ ظلم شعار لوگوں کو ہدایت نہیں دیتے۔

 

اس آیت میں ایک جامع لفظ ” دوست نہ بنانے کا استعمال کیا گیا ہے، یہ ایک معنی خیز تعبیر ہے، جس میں قلب و نگاہ کی محبت ، فکر و نظر میں تاثر ، سماجی زندگی کی مماثلت اور مالی معاملات و تعلقات سب شامل ہیں، یہ کوئی شدت پر مبنی حکم نہیں ہے بلکہ ظلم کے خلاف ناراضگی کے اظہار کا ایک طریقہ ہے، اس آیت کے اخیر میں ظالموں کا تذکرہ کر کے اس بات کی طرف اشارہ فرمایا گیا کہ جو یہود و نصاری ظلم وجور پر کمر بستہ ہوں ، مسلمانوں کے لیے اپنی طاقت و قدرت کے مطابق ان سےبے تعلقی برتنا واجب ہے۔

 

اللہ تعالی نے ایک اور موقع پر اس حکم کو مزید وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے، ارشاد ہے:

إِنَّمَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ قَاتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَأَخْرَجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ وَظَاهَرُوا عَلَىٰ إِخْرَاجِكُمْ أَن تَوَلَّوْهُمْ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُمْ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ  (الممتحنہ : ٩)

ترجمہ: بے شک اللہ تم لوگوں کو ان لوگوں سے تعلق رکھنے سے منع کرتے ہیں، جنھوں نے تم سے دین کے معاملہ میں جنگ کی تم کو تمہارے گھروں سے نکالا اور تمہارے نکالنے میں ایک دوسرے کی مدد کی اور جو ان سے تعلق رکھیں ، وہ بھی ظالم ہیں۔

گھروں سے نکالنا محض دین کی بنا پر آمادہ قتل و قتال ہونا اور جو لوگ مسلمانوں کے شہروں اور آبادیوں کو ویران کرنے پر تلے ہوئے ہوں ، ان کو مدد پہنچانا ، یہ وہ اوصاف ہیں جن کے حامل بدطینت یہودیوں اور نصرانیوں سے بے تعلقی برتنے کا حکم دیا گیا ہے، غور کیجیے کہ کیا آج امریکہ و برطانیہ ان جرائم کے مرتکب نہیں ہیں؟ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ بوسنیا میں مسلمانوں کے قتل عام میں در پردہ برطانیہ نے ظالم سربوں کی مد کی ہے، کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ان ممالک کی جفا کاریوں اور ستم انگیزیوں کی وجہ سے افغانستان کے مسلمان بڑی ابتلاؤں سے گزرے ہیں؟ کیا یہ اس ظالم اسرائیل کے ناصر و مدد گار نہیں ہیں، جو آئے دن بے قصور فلسطینی مسلمانوں کا قتل عام کرتے ہیں؟ اور جنھوں نے لاکھوں فلسطینیوں کو اپنے مادر وطن میں رہنے کے حق سے بھی محروم کر دیا ہے؟ قرآن نے جن کو یہود و نصاری سے بے تعلق ہونے اور رشتہ محبت کاٹ لینے کا حکم دیا ہے، ان مغربی طاقتوں میں ان اور ہمیں سے کون سی بات نہیں پائی جاتی ؟ پھر کیا ایسے اعداد دین سے بے تعلقی واجب نہ ہوگی ؟

لَّا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ (8 الممتحنہ)

ترجمہ: اللہ تعالیٰ تمہیں ان غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک اور انصاف سے نہیں روکتا جنھوںنے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہ کی ہو اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہ نکالا ہو، بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتے ہیں۔

 

جو غیر مسلم بھائی انصاف کی روش پر قائم ہوں، وہ ہمارے انسانی بھائی ہیں اور ہمارے برادرانہ سلوک اور حسن اخلاق کے مستحق ہیں اور ان کے ساتھ زیادتی کسی طور جائز نہیں۔ بے تعلقی کا حکم ا ان لوگوں سے ہے، جنھوں نے اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں جارحانہ اور نا منصفانہ روش اختیار  کر رکھی ہو، یہ سمجھنا کہ کسی خاص شخص کی حوالگی یا کسی خاص مطالب کی تکمیل مغربی طاقتوں کو مطمئن کر دے گی اور اسلام کے خلاف بغض و عناد کی جو آگ ان کے سینوں میں سلگی ہوئی ہے، اسے بجھانے میں کامیاب ہو جائے گی محض ایک طفلانہ خیال ہے، اس عناد کا اصل نشانہ اسلامی فکر و عقیدہ، اسلامی تہذیب و ثقافت اور مسلمانوں کا قبلہ اول مسجد اقصیٰ ہے، قرآن نے یہود و نصاری کی نفسیات اور ان کے اندرونی جذبات کی خوب تر جمانی کی ہے اور یہ بات جس قدر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں مبنی بر واقعہ تھی ، اسی قدر آج بھی ہے کہ :

 

وَلَن تَرْضَىٰ عَنكَ الْيَهُودُ وَلَا النَّصَارَىٰ حَتَّىٰ تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ ۗ قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدَىٰ ۗ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُم بَعْدَ الَّذِي جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ ۙ مَا لَكَ مِنَ اللَّهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ (120 البقرہ)

ترجمہ: یہود و نصاری آپ سے اس وقت تک راضی ہو ہی نہیں سکتے ، جب تک آپ ان کے دین کے پیرو نہ ہو جائیں ، آپ کہہ دیجیے کہ ہدایت تو وہ ہے جو اللہ کی ہے، اگر آپ علم حاصل ہونے کے بعد بھی ان کی خواہشات کی پیروی کرنے لگیں تو آپ کے لیے اللہ کے مقابلہ کوئی حامی و مددگار نہ ہوگا۔

 

قرآن نے اس میں یہود و نصاری کے اندرونی جذبات کو کھول کر رکھ دیا ہے اور خلافت عثمانیہ کے سقوط سے اب تک عالم اسلام میں جو جنگیں ہوئی ہیں، وہ سب اس کے واضح شواہد ہیں ؛ اس لیے ہیں جب تک مسلمان اپنے مذہبی تشخصات اور اپنے ثقافتی امتیازات کو خیر باد نہ کہہ دیں ، مسجد اقصیٰ سے اور اپنے مقدسات سے دستبردار نہ ہو جائیں اور پوری طرح مغربی فکر اور مغربی ثقافت کے سامنے جبین  تسلیم خم نہ کر دیں ، ان کی تشفی نہیں ہو سکتی اور ان شاء اللہ مسلمان کبھی اس کے لیے تیار نہیں ہوں گے ؟ اس لیے کہ وہ دین کے لیے سب کچھ کھونے کو پانا اور اللہ کی راہ میں رگ گلو کٹانے کو جینا تصور کرتے ہیں اور یہ ان کے ایمان و عقیدہ کا حصہ ہے!

اس پس منظر میں ہم مسلما نامریکہ اور اسرائیل کی تجارتی اشیاء کا بائیکاٹ کریں، جس کی فہرستیں بھی اخبارات اور سوشل میڈیا میں آچکی ہیں کہ یہ بھی منکر پر ناراضگی کے اظہار اور ظالم سے بے تعلقی برتنے کا ایک مؤثر طریقہ ہے اور شرعاً بہ حیثیت مسلمان ہم اس بات کے مکلف ہیں کہ اس سلسلہ میں جو طریقہ اختیار کرنا ہمارے لیے ممکن ہو، ہم اس سے دریغ نہ کریں، بعض حضرات کہتے ہیں کہ صرف مسلمانوں کے بائیکاٹ کرنے سے ان کا کیا نقصان ہو گا ؟ یہ درست نہیں ہے، اول تو اگر مسلم ممالک بھی اس بائیکاٹ میں شامل ہو جائیں تو اس کے غیر معمولی اثرات مرتب ہوں گے ، دوسرے: مسئلہ ان کو نقصان پہنچنے اور پہنچانے کا نہیں ہے؛ بلکہ اپنی طرف سے اظہار ناراضگی کا ہے، کتنے ہی واقعات پیش آتے ہیں کہ خاندان میں اختلاف پیدا ہوا اور اس کی وجہ سے ایک دوسرے کی دعوت میں شرکت سے گریز کرنے لگے، یہاں تک کہ بعض اوقات بات چیت بھی بند ہو جاتی ہے؛ حالاں کہ معلوم ہے کہ اس کے دعوت میں شریک نہ ہونے اور بات نہ کرنے سے دوسرے شخص کا کچھ بگڑنے والا نہیں ہے، لیکن مقصود اپنے جذبات کا اظہار ہوتا ہے، یہی جذبہ یہاں بھی ہونا چاہیے، غرض کہ یہ انسانی فریضہ ہے، یہ شرعی ذمہ داری ہے اور حمیت ایمانی اور غیرت اسلامی للکار کر ہم سے پوچھ رہی ہے کہ کیا ہم اس کے لیے بھی تیار نہیں ہیں ؟؟

 

 

 

جَزَاكَ ٱللَّٰهُ