بسم ﷲ الرحمٰن الرحیم

تحصیل علم کے آداب

 

 

Sidrah Fatima

TIL Women Urdu – Year 6

 

 

نحمده ونصلی علی رسولہ الکریم

 … انسان کے سنورنے کے لیے اور اپنے رب سے  تعلق قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ دین کا علم حاصل کیا جائے علم دین حاصل کیے بغیر نہ آدمی سنورتا ہے، نہ آدمی صحیح انسان بنتا ہے، نہ وہ معاشرے کا صیح اور کار آمد فرد بنتا ہے اور نہ اس کا اللہ تبارک و تعالی جو اس کا خالق اور مالک ہے  اسکے ساتھ تعلق بنتا ہے، اللہ کی طرف سے ہمہ وقت اپنے بندے پر ہزار ہا نعمتوں کی بارش ہورہی ہوتی ہے لیکن پھر بھی اس کی طرف نگاہ نہیں جاتی

 بے علم نتواں خدارا شناخت

علم دین کی تحصیل علمائے حق ہی سے ممکن ہے:

علم دین حاصل ہوتا ہے اہل حق علماء سے، اتنی بات ضرور ہے کہ علم دین کا حاصل ہونا ان علماء سے کتاب پڑھنے پر موقوف نہیں ، اس لیے کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے تو یہ کتا بیں نہیں پڑھی تھیں، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ، آپ کی خدمت میں رہ کر انہوں نے علوم حاصل کیے صحابہ کرام کے علوم کے بارے میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ( جو صحابہ کی جماعت میں بہت بڑے فقیہ شمار ہوتے ہیں اور ہماری فقہ حنفی کا بڑا مدار ابن  مسعود رضی اللہ عنہ کی فقہ پر ہے ) گواہی دیتے ہیں کہ “کانوا عمقها علماً

 

ان حضرات کا علم گہرائی لیے ہوئے تھا اور حقیقت تک پہنچتے تھے اور اس کا ادراک کرتے تھے، تو اب خیال کیجیے کہ ہمارے ہاں سینکڑوں کتا بیں پڑھی جاتی ہیں ، ان کتابوں کے ذریعے ہمیں یہ تو معلوم ہو جاتا ہے کہ قَالَ اصل میں قَوَلَ تھا اور فاعل و مفعول کا اعراب بھی معلوم کر لیتے ہیں ، یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ وضو کے اندر یہ یہ فرائض ہیں ، اسی طرح باقی احکامات کے بارے میں بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ لیکن یہ علوم اصل نہیں جو کہ شریعت میں مقصود اور مطلوب  ہوں ، اور وجہ اس کی یہ ہے کہ علم در حقیقت نور ہے جو قلوب کو اور دماغ کو روشنی بخشتا ہے اور یہی نور اور روشنی علمائے حق اور علمائے ربانی سے علم حاصل کرنے سے حاصل ہوتی ہے، ورنہ آپ دیکھتے ہیں کہ لوگوں نے علم حاصل کیا ہوتا ہے اور اس علم کے باوجود بدعات سے ان کے لیے نکلنا مشکل ہوتا ہے۔

 

 

ایمان اور تقوی کے بغیر قرآن اور حدیث کے انوارات سے محرومی:

 

آپ نے دیکھا ہے کہ وہ لوگ جو عیسائی ہیں یا یہودی ہیں وہ ہمارے انہی قرآن اور حدیث کو پڑھتے ہیں اور پڑھاتے ہیں اور ان کے بڑے بڑے ادارے اس مقصد کے لیے قائم ہیں جن کے اندر ہمارے دورہ حدیث تک کا مکمل نصاب پڑھایا جاتا ہے۔ ان میں بڑے بڑے عالم بھی ہیں ، حدیث کے علماء بھی موجود ہیں ، حدیث اور تفسیر میں تحقیق اور ریسرچ کے لیے ان کے یہاں با قاعدہ علماء مقرر اور متعین ہیں اور اسی طرح دوسرے معاون علوم جیسے صرف امور لغت علم ادب اس میں بھی ان کے یہاں بڑے بڑے علماء موجود ہیں، آج بھی موجود ہیں، پہلے بھی موجود تھے، ان کی کتا بیں بھی شائع ہوتی ہیں اور ہم تک پہنچتی بھی ہیں اور ان کی بعض کتا بیں ہمارے زیر مطالعہ بھی آتی ہیں جیسے لغت کی کتاب “المنجد ” آپ سب اس سے واقف ہیں، کہ یہ ایک عیسائی کی لکھی ہوئی ہے لیکن ان کا نقطہ نظر ایمان کی تائید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی علوم کی توثیق پیش نظر نہیں ہے، ان کے سامنے ان علوم میں نقص اور عیب نکالنا ہے، کتابی علم تو بے ایمان لوگ بھی حاصل کرتے ہیں، اسی طریقے سے تقوی کے بغیر بھی لوگ کتابی علم حاصل کرتے ہیں اور اس کتابی علم کی بنا پر متون بھی ان کو یاد ہو جاتے ہیں، شروح پر بھی ان کی نظر ہوتی ہے۔ حواشی سے بھی وہ استفادہ کرتے ہیں لیکن ان کے پاس نور نہیں ہوتا، اور آپ یہ بات یاد رکھیں اور اس کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیں کہ جو آدمی معاصی کا ارتکاب کرتا ہے اس کو علم حاصل نہیں ہوتا ۔ یا ارتکاب معصیت سے پہلے اس نے علم حاصل کیا تھا تو معاصی کے ارتکاب کے بعد و علم باقی نہیں رہتا، معاصی کا ارتکاب کرنے والا علوم سے محروم رہ جاتا ہے اور ار تکاب معصیت سے مراد ہے اس کو عادت بنانا یوں  بتقاضائے بشریت انسان سے گناہ ہو جائے اور وہ فورا  توبہ اور تلافی کرلے تو وہ اس محرومی میں داخل نہیں، تقاضائے بشریت انسان سے صغیرہ، کبیرہ دونوں طرح کے گناہ سرزد ہو سکتے ہیں، لیکن اس کے لیے حکم یہ ہے کہ اپنی شرائط کے ساتھ توبہ و استغفار کیا جائے اور علم والوں کو معلوم ہے کہ ہر گناہ سے توبہ کرنے کا اپنا طریقہ ہے، نمازیں قضاء ہوتی ہیں تو تو یہ تب مقبول ہے کہ قضا کو ادا کرنے کی بھی نظر کرنے، کسی کا حق ضائع کیا ہے تو اسے ادا کرے یا معاف کرائے ۔۔۔۔وغیرہ تو اللہ تبارک و تعالی اس تو بہ و استغفار کی برکت سے اس معصیت کی نحوست کو ختم فرما دیتے ہیں اور یہ انسان محروم نہیں ہوگا۔

 

 

طلبہ علم دین پر اللہ تعالی کے انعامات

ہم بہت خوش قسمت ہیں کہ اللہ تعالی نے زندگی کا یہ بہترین زمانہ ہمارے لیے علم نبوت حاصل کرنے کے لیے فارغ کر دیا ہے،  اللہ نے دماغ اور دل عطا فرمائے ہیں اور ان علوم کو حاصل کرنے کے لیے یکسوئی نصیب فرمائی ہے۔ یہ کس کو نصیب ہے؟،

کتنی ایسی عورتیں ہیں جن کا مقصد صرف گھر بار بچے ہوتے ہیں۔۔۔اللہ نے آپ لوگوں کو گھر  بیٹھے انٹرنیٹ پر موجودہ دور میں دین سے مستفید ہونے کے لئے چنا۔۔۔

 اساتذہ پوری تیاری کے ساتھ آ کر آپ کے اسباق کا اہتمام کرتے ہیں اور آپ کو موقع بموقع سمجھاتے بھی رہتے ہیں ، آپ کا مقصد بھی آپ کو یاد دلاتے رہتے ہیں۔ اس کے باوجود بھی اگر آپ اس کی ناقدری کریں گے اور اپنے اوقات ضائع کریں گے اور پوری لگن اور مشقت سے نہ پڑھیں گے تو یہ افسوس کی بات ہے، بہت زیادہ افسوس کی بات ہے۔ اللہ تعالی نے آپ کو بہترین اور عمدہ  موقع فراہم کیا ہے، میں آپ سے نہ کسی بہت اعلیٰ ریاضت کا مطالبہ کر رہی ہوں اور نہ کسی سخت مجاہدے میں آپ کو ڈال رہی ہوں ، نہ آپ کے کندھوں پر بے جا مشقت کا بوجھ لاد رہی ہوں نہیں ! بلکہ یہ جو آپ کی زندگی ہے اس کے ساتھ ساتھ اپنا رخ تبدیل کریں کہ یہ پڑھنا عمل کے طور پر ہو ، صرف نقوش حاصل کرنا نہ ہو، اور تقویٰ حاصل کرنے کے لیے معاصی سے اجتناب کیا جائے، معاصی کے ارتکاب سے دل سیاہ ہوتا ہے اور جب دل سیاہ ہو جاتا ہے تو اللہ اور اس کے رسول سے غفلت ہو جاتی ہے اور خدانخواستہ یہ غفلت ترقی کر جائے تو پھر کوئی کتنا بھی سمجھائے اس کے سمجھانے کا اثر نہیں ہوتا ، بلکہ سمجھانے سے الٹا نقصان ہوتا ہے کہ سمجھانے والے کا مذاق اڑانے لگتے ہیں۔ بہت خطر ناک بات ہو جاتی ہے۔ آج ہمارا اہل علم کا جو طبقہ ہے وہ اور عامتہ اسی طرح کی صورت حال سے دو چار ہے، اہل صلاح ، اہل فلاح اہل تقویٰ اور اہل معرفت کا فقدان ہے، حالانکہ بڑی بڑی صلاحیتیں ہمارے ان بچوں اور طلبہ میں ہوتی ہیں لیکن انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا پورا فائدہ نہیں اٹھایا۔

 

جہاں جاؤ! جس مجلس میں بیٹھو، گناہ ہی گناہ ہیں، بس یہی ہمارا موضوع ہے کہ  غیبتیں کی جائیں اور عیب تلاش کریں اور ان کی کوتاہیوں کو بیان کریں، یہ عام رواج ہے اور اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے تو یہ اللہ تبارک وتعالی نے جو موقع آپ کو عطا فر مایا ہے آپ اس کو ضائع نہ کریں

 

 

 

جَزَاكَ ٱللَّٰهُ