بسم ﷲ الرحمٰن الرحیم

حج سے واپسی اپنے معمول کی زندگی کی طرف!

 

 

Daniya Mehreen

TIL Graduate

 

 

حج ایک اہم فريضہ

حج اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک رکن ہے۔ ہر سال جب حج کا موسم آتا ہے کروڑوں لوگ دل میں تمناؤں کی فہرست لئے مکہ مکرمہ کی طرف چل کے ہیں اور کچھ اپنی تمناؤں کو اپنے پروردگار کے حضور پیش کر کے اپنی آس كی گاگر اپنے سینوں میں چھپا لیتے ہیں.. جن کا اللہ تعالیٰ انتخاب فرماتے ہیں اور انہیں حج کی سعادت نصیب ہو جاتی ہے، انہیں یہ خواہش کرتے چاہئے کہ حج اللہ جل شانہ کے نزدیک مبرور ہو.. کیونکہ حج مبرور کا بدلہ جنت کے سوا کچھ اور نہیں (حدیث)۔ حج کے دوران بھی حاجی کی کوشش ہو کہ یہ حج اللہ کی رضا کا سبب بن جائے اور حج کے بعد بھی اس کی قبولیت کی دعا کرتے رہنا چاہئے!!

جب حج کی ایک عظیم ترین عبادت مکمل ہو جاتی ہے اور حاجی اپنے وطن اور اہل و عیال کہ طرف روانہ ہونے لگتا ہے تو اس کا دل کئی سارے جذبات کا حامل ہوتا ہے.. کبھی حرمین سے جدائی کا درد ہوتا ہے.. کبھی اہل خانہ سے ملاقات کا شوق ہوتا ہے اور کبھی حج کی قبولیت کی تمنا اور دعا کر رہا ہوتا ہے.

 

حج کے بعد کی زندگی کیسی ہو؟

جب حاجی حرمین شریفین کی مقدس فضاؤں میں ہوتا ہے، اس کے اندر عبادت کا شوق زیادہ ہوتا ہے. لیکن اکثر دیکھا جاتا ہے کہ حاجی اپنے وطن اور گھر کی طرف لوٹ کر اپنے معمول کی زندگی میں مست اور سست ہو جاتا ہے۔ کتابوں میں اکثر لکھا جاتا ہے کہ حج مبرور کی نشانی یہ ہے کہ حاجی حج سے واپسی کے بعد اپنے اعمال کا خیال رکھے۔

 

١.اپنے معمولات میں تبدیلی

ایک مقبول حاجی اپنے وطن واپس آجانے کے بعد اپنے آپ کو نیکی کی طرف مائل کرنے کی کوشش کرتا رہے، گناہوں سے اجتناب کرتا ہے اور اپنے آپکو ایک بہتر مسلمان بنانے کی فکر میں لگا رہتا ہے ۔

احیاء العلوم میں امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“قبول حج کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ حاجی ان تمام نافرمانیوں کو ترک کردے جو اس سے پہلے کی گئی تھیں، وہ برے دوستوں کی صحبت چھوڑ دیتا ہے اور نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرتا ہے، وہ کھیل کود اور محفلوں کو ترک کرتا ہے۔ ذکر و فکر کی محفلوں اور ان محفلوں میں شرکت کرتا ہے جن میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اس کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کثرت سے کیا جاتا ہے۔ (احیاء العلوم، جلد 1، صفحہ 803)

لہٰذا یہ بات انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ حج سے واپسی کے بعد بھی حجاج کرام اپنے اعمال پر نظر رکھیں، تمام برائیوں سے اجتناب کریں اور نیکی کی کوشش کریں۔

 

 

۲.استقامت

حج میں جس قدر عبادات ہوتی ہیں، ان اعمال و عبادات کو بعدِ حج بھی جس قدر ہوسکے مضبوطی سے پکڑے رہنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

حضرت سمرہؓ سے روایت ہے ، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :نماز قائم کرو ، زکاۃ ادا کرو ، حج و عمرہ کرو اور استقامت اختیار کرو، تمھارے معاملات درست رہیں گے ۔ (طبرانی کبیر)

حج میں جس طرح ہماری عبادات میں اضافہ ہوتا ہے، اسی طرح ہمارے اخلاق و تقویٰ میں بھی بہتری آتی ہے.. کیونکہ حج کے ایام میں اللہ تعالیٰ ہر طرح کی فحش گوئی سے اور لڑائی جھگڑے سے بچنے کا حکم دیتے ہیں اس لئے اکرام اپنے نفس اور غصے پر قابو پانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ تو یہ بات بھی اہم ہے کہ وہ بعد حج بھی اس پر استقامت کے ساتھ عمل کرتے رہیں، اور فسق ، فحش باتوں اور غصے سے اجتناب کرتے رہیں!۔

 

٣. حج پر افتخار نہ کرے

حجاج کرام جب حج سے لوٹتے ہیں تو وہ بخشے بخشائے ہوتے ہیں، ایسے جیسے نومولود بچہ! جب حاجی گھر لوٹتا ہے تو وہ اپنے حج کی کارگزاریاں سناتا ہے، اس میں اسکی کوشش یہ ہو کہ ریاکاری نہ ہو۔ حج میں افتخار،  اشتہار اور تعظیم و تکریم کی خواہش نہ ہونی چاہیے ، اس میں تواضع و مسکنت، عاجزی و خواری ہونی چاہیے. اپنے دوست و اقارب سے ملاقات پر بھی اللہ کا شکر ادا کرتے رہنا چاہئے کہ اللہ نے آپکو آپکا فرض ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔

 

کیا آپ حج کے بعد اپنی روز مرہ زندگی میں لوٹ جائیں گی؟

حج کا موسم ختم ہوا اور حجاج قافلے در قافلے اپنے مسکنوں کی طرف لوٹ رہے ہیں..

 

آپ اپنے پرانے معمولات زندگی کی طرف لوٹ رہی ہیں؟

اسی پرانے معمول پر زندگی کی وہی پرانی ہلچل، نوکری، بچے…. واپس اسی پرانے “خود” کی طرف ؟؟ رک جائیں! ایک لمحہ انتظار کریں اور سوچیں کیا آپ واپس اس زندگی کی طرف لوٹ جانا چاہتی ہیں، جب کہ اللہ نے آپ کی زندگی کے تمام تر گناہوں کو معاف فرما کر آپ کو ایک نیا وجود بخشا ہے..

 

آپ اس زندگی کی طرف لوٹنا چاہتی ہیں جس میں آپ اپنے پروردگار کو بھول جائیں گی؟ یا اپنا مقصدِ حیات بھول جائیںگےی؟ یا اپنے گناہوں سے پاک نامہ اعمال میں سیاہی کا پہلا نقطہ لگائیں گی؟

 

کیا آپ کعبہ پر وہ پہلی نظر بھول گئی؟؟؟ جس کو دیکھ کر آپ نے اپنے رب سے محبت کی تار جوڑنے کا ایک پختہ عزم کیا تھا.. اپنے رب کی شان، اسکے جلال کی ایک مثال مسجد الحرام کو بھول گئی؟

 

کیا آپ نے منیٰ اور مزدلفہ کی مشقت کو بھلا دیا؟ جو آپ نے صرف اپنے اللہ کی رضا کی خاطر سہن کر لیا تھا… جس سے آپ کو سبق ملا کہ اللہ کے حکموں پر عمل کرنا بظاہر دشوار بھی لگے، لیکن انسان اپنے عزائم اور خود اعتمادی سے اللہ کے نافذ کردہ احکام کو بغیر سستی کے ادا کر سکتا ہے!

یاد کریں جب ہم نے جمرات پر اپنے دشمن کو کنکریاں ماری تھی..اور اپنے نفرت کا اظہار کیا تھا.. آج اس دشمن کے پھر پیروکار بن جاؤ گے؟

 

کیا ہم اتنی جلدی بھول گئے وہ آنسو، وہ لرزتے ہونٹ، وہ تڑپتا دل،وہ اٹھے ہاتھ ،وہ بلک بلک کے رونا اور اپنے رب کو منانا…

اس دنیا کی رونق اور افراتفری آپ کو ان سب سے دور نہ ہونے دے۔

روز مرہ کے معمولات اور یہاں کی ہلچل آپ کو اپنے رب کے ساتھ کئے گئے اپنے وعدوں کو بھولنے پر مجبور نہ کرے۔

یاد رکھیں کہ سات ارب لوگوں میں سے اللہ نے آپ کو اپنے گھر بلایا اور آپ کو عزت بخشی اور آپکے گناہ معاف کئے۔

اب آپ کی زندگی ایک کورے کاغذ کی طرح ہے۔ اور قلم آپ کے ہاتھ میں ہے! آپ چاہیں تو خوبصورت پھول بنائیں یا اس کو سیاہی سےبھر دیں..

ہوشیار رہیں جو لکھیں.. محتاط رہیں..

 

جَزَاكَ ٱللَّٰهُ