بسم ﷲ الرحمٰن الرحیم

تحمل و درگزر: نبی کریم ﷺ کی زندگی سے اہم سبق

 

 

Aatika Sajjad

TIL Women Urdu – Year 2

 

تحمل اور درگزر کا موضوع اسلام میں بنیادی اہمیت رکھتا ہے اور قرآن و حدیث میں اس کی بار بار تاکید کی گئی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں یہ اوصاف نہایت نمایاں تھے اور امت کے لیے ایک عظیم سبق سبحان اللہ!!

تحمل و درگزر کی فضیلت

  • الله کی رضا
  • نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت:

نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی زندگی میں تحمل اور درگزر کی بہترین مثال قائم کی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے مخالفین کے ساتھ بھی نرمی اور رحمت کا سلوک کیا۔۔

  • دل کی صفائی اور امن:

تحمل اور درگزر کرنے سے دل صاف ہوتا ہے اور انسان کے دل میں دوسروں کے لیے بغض و کینہ کم ہوتا ہے، جو کہ ایک پرامن اور خوشگوار زندگی کے لیے ضروری ہے۔

  • سماجی ہم آہنگی:

جب فرد تحمل اور درگزر کا مظاہرہ کرتا ہے، تو اس سے سماجی تعلقات مضبوط ہوتے ہیں اور جھگڑالو حالات کم ہوتے ہیں، جو کہ ایک مثبت معاشرتی ماحول فراہم کرتا ہے۔

  • آخرت میں انعام:

نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: “جو شخص اپنے غصے کو پی جائے، اللہ تعالیٰ اُس کے دل کی حالت کو بہتر بنائے گا۔” (ابن ماجہ)

قرآن عظیم الشان میں اللہ نے ارشاد فرمایا ہے :

إِنَّمَا ٱلْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ ۗ فَأَصْلِحُوا۟ بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ ۗ وَاتَّقُوا۟ ٱللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ”(سورہ الحجرات آیت ٠٩)

 “یقیناً مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں، پس اپنے بھائیوں کے درمیان صلح کرواؤ، اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

“وَالَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ ٱلْإِثْمِ وَٱلْفَوَاحِشَ وَإِذَا مَا غَضِبُوا۟ هُمْ يَغْفِرُون (سورہ شوری آیت٣٧

اور جو بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائیوں سے اجتنا کرتے ہیں اور جب ان پر غضب آتا ہے تو معاف کر دیتے ہیں۔”

“یہ آیات تحمل، صلح اور درگزر کے اصولوں کی وضاحت کرتی ہیں اور مسلمانوں کو آپس میں انصاف اور محبت کے ساتھ پیش آنے کی تعلیم دیتی ہیں۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عملی نمونہ

 

شہرِ طائف:

سفرِ طائف، نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی کے ایک انتہائی مشکل اور غمناک دور کا واقعہ ہے۔ یہ واقعہ عام طور پر 10 نبوی کے دوران پیش آیا، جب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو قریش کے سرداروں کی جانب سے سخت مخالفت کا سامنا تھا۔ اس مخالفت کی شدت کو کم کرنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے طائف کا سفر کیا، جہاں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قبائل ثقیف کے سرداروں کو دعوت دی کہ وہ اسلام کو قبول کریں اور اس کی حمایت کریں۔

سفر کا آغاز:

نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے طائف پہنچ کر وہاں کے لوگوں کو دعوت دی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انہیں اللہ کے دین کی طرف بلایا اور انہیں سمجھایا کہ اگر وہ اسلام کو قبول کر لیں تو یہ ان کے لیے دنیا و آخرت کی بھلائیاں لے کر آئے گا۔

مخالفت اور تکالیف:

طائف کے لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دعوت کو رد کر دیا۔ اس سے بھی بڑھ کر، انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو انتہائی ذلت آمیز سلوک کا سامنا کرایا۔ ان لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پتھر پھینک کر بھگا دیا، جس کے نتیجے میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاؤں خون آلود ہو گئے۔

» واقعہ طائف آپ کی زندگی کے سخت ترین دن تھا حضرت عائشہ نے اس واقعہ کے تقریباً 5 سال بعد جب غزوہ احد بھی ہو گیا تھا اس کے بعد ایک دن رسول سے سوال کیا غزوہ احد میں آپ کو بہت تکلیف پہنچی تھی آپ زخمی بھی ہوئے تھے. بہت زیادہ صحابہ شہید ہوئے تھے

 حضرت عائشہ نے پوچھا یا رسول الله!!  احد سے زیادہ سخت دن آپ کی زندگی میں آیا ہے رسول نے فرمایا : ہاں عائشہ طائف کا دن –

صبر و تحمل:

سفرِ طائف میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے دکھائی گئی صبر و تحمل کی مثال مسلم اُمہ کے لیے ہمیشہ ایک سبق رہی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے مخالفین کے ساتھ بھی نرمی اور رحمت کا سلوک کیا، جو اسلام کی تعلیمات کا عکاس ہے۔

حدیث مبارکہ:

 

مَن لا يُحْسِنُ إِلَى النَّاسِ، فَلَيْسَ مِنَّا.” (صحيح مسلم)

“جو لوگوں کے ساتھ حسن سلوک نہیں کرتا، وہ ہم میں سے نہیں ہے۔” (صحیح مسلم)

مَن لا يَرْحَمُ النَّاسَ لَا يَرْحَمُهُ ٱللَّهُ” (صحيح مسلم)

 “جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا، اللہ اس پر رحم نہیں کرتا۔” (صحیح مسلم)

  “أُرْسِلْتُ لِأُتَمِّمَ مَكَارِمَ ٱلْأَخْلَاقِ” (صحيح بخاري)

 

“مجھے بھیجا گیا ہے تاکہ میں بہترین اخلاق کو مکمل کروں۔” (صحیح بخاری)

 

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث میں فرمایا: “جو شخص معاف کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کا مرتبہ بلند کرتا ہے” (صحیح مسلم)۔

  • ا ن احادیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ معاف کرنا ایک ایسا عمل ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجر و ثواب کا باعث بنتا ہے۔

فتح مکہ:

 فتح مکہ کے موقع پر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ فتح کیا، تو آپ کے پاس موقع تھا کہ آپ ان لوگوں سے بدلہ لیں جنہوں نے آپ کو اور آپ کے صحابہ کو بے پناہ اذیتیں دی تھیں۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”آج تم پر کوئی گرفت نہیں، جاؤ تم سب آزاد ہو”۔

یہ ایک عظیم مثال ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سب سے بڑے دشمنوں کو بھی معاف کر دیا اور درگزر کا مظاہرہ کیا۔

 

 

نبی کریم ﷺ کی مبارک زندگی سے تحمل و درگزر کے اہم اسباق:

 

‌• دوسروں کے ساتھ حسن سلوک: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ لوگوں کے ساتھ حسن سلوک کا مظاہرہ کیا، چاہے وہ دوست ہوں یا دشمن۔۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ہمیں سکھاتی ہے کہ ہر فرد کے ساتھ محبت اور نرمی کے ساتھ پیش آنا چاہیے، چاہے وہ ہماری توقعات پر پورا نہ اترے۔ ہر شخص کے ساتھ حسن سلوک اور نرمی کا مظاہرہ کریں، اور دوسروں کے ساتھ خیرخواہی کا رویہ اپنائیں

  • مشکل حالات میں صبر:نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی کی مشکلات اور آزمائشوں کو صبر و تحمل کے ساتھ برداشت کیا۔

جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ مکرمہ میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، تو آپ نے صبر کے ساتھ تحمل کا مظاہرہ کیا۔ زندگی کی مشکلات اور آزمائشوں میں صبر اور تسلی رکھیں۔ مشکلات کا سامنا کرتے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو یاد کریں اور صبر کے ساتھ عمل کریں۔

  • معاف کرنے کا عمل دل سے کرنا:نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دشمنوں کو بھی معاف کیا اور ان کے ساتھ حسن سلوک کا مظاہرہ کیا۔۔

 یہ ہمیں سکھاتا ہے کہ معاف کرنے کے عمل کو دل سے کرنا چاہیے، نہ کہ صرف زبانی طور پر۔سبق: معاف کرنے کے عمل کو دل سے اپنائیں اور دل کی گہرائیوں سے دوسروں کو معاف کریں۔ معافی کا عمل صرف زبانی نہیں بلکہ دل کی حالت پر بھی منحصر ہے۔

  • خود پر قابو پانا:نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر موقع پر خود پر قابو پانے کی کوشش کی۔ آپ نے کبھی بھی اپنے غصے یا جذبات کو دوسروں پر نہیں نکالا، بلکہ صبر اور تحمل سے کام لیا۔

 اپنے جذبات پر قابو پانے کی کوشش کریں۔ غصے یا جذبات کی حالت میں خود پر قابو پانا اور عقل و فہم سے کام لینا ضروری ہے۔

  • مثال قائم کرنا:نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں عملی طور پر تحمل اور درگزر کا بہترین نمونہ پیش کیا۔ آپ کی ہر بات اور عمل میں صبر اور معافی کی مثال ملتی ہے۔

اپنی زندگی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مثال کو پیش نظر رکھیں اور اپنے عمل کے ذریعے دوسروں کے لیے ایک مثال قائم کریں۔

  • معاشرتی امن و سکون کے قیام میں مدد:نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق، تحمل اور درگزر سے معاشرتی امن و سکون قائم ہوتا ہے۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سیرت سے یہ سکھایا کہ معاف کرنے اور درگزر کرنے سے دلوں میں محبت اور ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے۔

 معاشرتی سطح پر امن و سکون برقرار رکھنے کے لیے تحمل اور درگزر کا مظاہرہ کریں۔ معاشرتی تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے صبر اور معافی کی اہمیت کو سمجھیں۔

  • ذاتی ترقی اور روحانی بلندی:نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے اصول ہمارے ذاتی کردار کی ترقی اور روحانی بلندی کے لیے بھی ہیں۔ تحمل اور درگزر سے ہم اپنی روحانی حالت کو بہتر بنا سکتے ہیں اور اللہ کی رضا حاصل کر سکتے ہیں۔

ذاتی اور روحانی ترقی کے لیے صبر اور معافی کی عادت ڈالیں۔ اپنی روحانی حالت کو بہتر بنانے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے رہنمائی حاصل کریں

  • نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں تحمل اور درگزر کا سبق ہمیں سکھاتا ہے کہ ہمیں بھی اپنے روزمرہ کے معاملات میں صبر اور معافی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ اگر ہم تحمل اور درگزر کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں گے تو نہ صرف ہمارے دل میں سکون پیدا ہوگا بلکہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی بھی حاصل ہوگی۔ا

للہ تعالیٰ ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔