بسم ﷲ الرحمٰن الرحیم

آپ ﷺکا آخری خطبہ

 

 

نور شرافت حقیقی

TIL Women Urdu – Year 3

 

۲۹/صفر ۱۱ھ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی جنازے کے ساتھ جنت البقیع میں تشریف لے گئے، وہاں سے تشریف لاتے ہی سر مبارک میں درد شروع ہوگیا، پھر بخار ہوگیا، اور بخار اتنا تیز ہو گیا کہ جو کپڑا سر مبارک پر باندھا ہوا تھا، بخار کی شدت کی بنا پر گرمی اس سے باہر آرہی تھی، اسی کو مرض الوفات کہتے ہیں۔ بیماری تقریباً ۱۳/۱۴روز تک رہی۔

(سراجا میرا؛ مفتی فیض الوحید رحمتہ اللہ)

 

نماز ظہر کے وقت طبیعت میں کچھ افاقہ ہوا تو آپ ﷺ نے حکم فرمایا کہ میرے سر پر پانی کے سات مشکیزے ڈالو۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے حکم کے مطابق آپ کے سر مبارک پر پانی کے سات مشکیزے ڈالے۔ حضرت عباس اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کے سہارے سے مسجد میں تشریف لائے اور ظہر کی نماز پڑھائی۔ نماز کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری خطبہ تھا۔

 

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حمد و ثناء کی:اس کے بعد احد والوں کے لئے دعاۓ مغفرت کی۔ پھر فرمایا کہ مہاجرین کی جماعت زیادہ ہوگی اور انصار کی کم ہوگی۔ مہاجرین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:انصار میرے محسن ہیں، ان میں جو نیک ہوں ان سے حسن سلوک کرنا اور جن سے غلطی ہو جائے ان سے در گزر کرنا۔ اس کے بعد فرمایا:اللہ رب العزت نے اپنے بندے کو اختیار دیا ہے کہ وہ دنیا کی نعمتوں کو اختیار کرے یا آخرت کی نعمتوں کو اختیار کرے لیکن اس نے آخرت کی نعمتوں کو اختیار کیا ۔

 

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سمجھ گئے کہ اس سے مراد اللہ کے رسول ﷺ  ہیں اور زاروقطار رو پڑے، کہنے لگے:میرے ماں باپ آپ پر قربان یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اے ابوبکر! ٹھہرو، ذرا صبر کرو۔

پھر مسجد کے دروازے بند کرنے کا اشارہ کیا اور فرمایا کہ صرف ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کا دروازہ کھلا رہنے دیا جائے۔ اللہ کے رسول ﷺ پر سب سے زیادہ احسان کرنے والے ابوبکر ہیں۔ ان سے بڑھ کر کسی نے مجھ پر احسان نہیں کیا۔ تم لوگوں میں جس جس نے مجھ پر احسان کیا ہے اس کا بدلہ میں نے دنیا میں پورا کر دیا۔ صرف ابوبکر کا بدلہ قیامت کے دن اللہ رب العزت خود دیں گے۔ اگر میں اللہ کے علاوہ کسی کو ایسا دوست بناتا کی جس کے سامنے میں اپنی ساری ضرورتیں رکھتا اور وہ میری ساری ضرورتیں پوری کر دیتا تو وہ ابوبکر ہوتے لیکن مجھے ان سے دینی محبت اور اخوت ہے جس میں یہ سب سے زیادہ فضیلت کے مقام پر فائز ہیں اور اس میں ان کا کوئی برابر اور شریک نہیں۔

اس کے بعد فرمایا:اسامہ بن زید (رضی اللہ عنہ) کے لشکر کو جلد روانہ کرنا اس لئے کہ بعض لوگ (منافقین) اعتراض کرتے ہیں کہ بڑی عمر کے بزرگوں کےہوتے ہوئے نوجوان لڑکے کو امیر کیوں بنایا؟ یہی اعتراض ان کے والد زید(رضی اللہ عنہ) پر بھی ہوا تھا۔ اللہ کی قسم! ان کا والد زید اور خود اسامہ (رضی اللہ عنہما) دونوں امارات اور سرداری کے اہل تھے۔ اور میرے نزدیک محبوب ترین لوگوں میں سے ہیں۔

اور فرمایا :یہود و نصاریٰ پر اللہ کی لعنت ہو جنہوں نے اپنے انبیاء علیہم السلام کی قبور کو سجدہ گاہ بنا لیا۔ فرمایا:اے لوگو! مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ تم لوگ اپنے نبی(صلی اللہ علیہ وسلم) کی وفات سے نہایت پریشان ہو۔ مجھے بتاو! کیا کوئی نبی پہلی امتوں میں ہمیشہ رہا ہے؟

 

وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوۡلٌ  ۚ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِهِ الرُّسُلُ‌ؕ اَفَا۟ئِنْ مَّاتَ اَوۡ قُتِلَ انْقَلَبۡتُمۡ عَلٰٓى اَعۡقَابِكُمۡ‌ؕ وَمَنۡ يَّنۡقَلِبۡ عَلٰى عَقِبَيۡهِ فَلَنۡ يَّضُرَّ اللّٰهَ شَيۡــئًا‌ ؕ وَسَيَجۡزِى اللّٰهُ الشّٰكِرِيۡنَ

(آیت نمبر 144:آل عمران)

 

ترجمہ:اور محمد ﷺ ایک رسول ہی ہیں۔ ان سے پہلے بہت سے رسول گزرچکے، بھلا اگر ان کی بھی رحلت ہوجاۓیا انہیں شہید کر دیا جائے تو کیا تم لوگ (دین اسلام کو چھوڑ کر) الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟ اور جو کوئی الٹے پاؤں پھرے گا(مرتد ہو جائے گا) وہ اللہ تعالیٰ کو قطعاً کوئی نقصان نہیں دے سکتا۔ اللہ اپنے شکر گزار بندوں کو ثواب عطا فرمائے گا۔

 

مذکورہ بالا آیت کریمہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :اس بات کو خوب اچھی طرح جان لو کہ میں بھی اللہ سے ملنے والا ہوں، تم بھی اللہ سے ملنے والے ہو اور میں وصیت کرتا ہوں کہ اولین مہاجرین کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور مہاجرین تقوی اور عمل صالح پر قائم رہیں اور اے مسلمانو! میں انصار کے بارے میں حسن سلوک کی وصیت کرتا ہوں، انہوں نے اسلام اور ایمان کو ٹھکانہ دیا ہےاور تمہیں مال وغیرہ میں فقر کے باوجود شریک بنایا ہے اور تمہیں اپنے اوپر ترجیح دی ہے۔ یہ بات اچھی طرح جان لو میں تم سے پہلے جارہا ہوں اور تم مجھ سے حوض کوثر پر ملو گے، جس کا وعدہ کیا گیا ہے۔

 اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر مبارک سے نیچے اترے اور اپنے حجرہ مبارکہ میں تشریف لے گئے۔

 

 

 

جَزَاكَ ٱللَّٰهُ